محمد اظہر نذیر
محفلین
تُم یا تُو نہیں بولا، بات آپ ہی تک ہے
کیوں یقیں ہے پھر مجھ کو، ساتھ، عاشقی تک ہے
خوف کیا دلاتے ہو، رات کے اندھیروں سے
کیا بگاڑ لے گی جو، خود بھی روشنی تک ہے
ظلم خود پہ سہتے ہیں، پھر بھی کچھ نہ کہتے ہیں
ظالموں کا سارا یہ، جور ، عاجزی تک ہے
وقت ہے جو ہاتھوں میں، وہ نکل نہ جانے دو
زندگی یہ کیا جانو، اور کس گھڑی تک ہے
بات بن نہیں پائی، کچھ بھی کر کہ دیکھا ہے
بات سے چلی تھی جو، بات، بات ہی تک ہے
درد تو مٹانا ہے، فہم طاق پر رکھ دوں؟
ٹیس اُٹھ رہی ہے پر، یہ تو بے خودی تک ہے
مختصر رہے، اچھا، گفتگو بھی جاہل سے
کہ شعور انساں کا ، علمُ آگہی تک ہے
عاجزوں کی کیا اظہر، فہم بھی، فراست بھی
رب کی دین ہے تیرا، ہاتھ شاعری تک ہے