محمد اظہر نذیر
محفلین
گل تو تھا گل سے گلستاں نہ بنا
ایک تنکے سے آشیاں نہ بنا
ساری دنیا نئی بسانی پڑی
صرف آدم سے تو جہاں نہ بنا
جس طرح خاک سے بنا آدم
اُس سہولت سے آسماں نہ بنا
شمس جلتا رہا مرے سر پہ
میں نے چاہا بھی سائباں نہ بنا
روٹھ کر پھر خلیج بڑھتی گئی
کوئی پُل بھی تو درمیاں نہ بنا
اک زمانہ لیا بھروسے نے
یوں اچانک وہ رازداں نہ بنا
سب چلے ساتھ میں ترے اظہر
تجھ اکیلے سے کارواں نہ بنا
ایک تنکے سے آشیاں نہ بنا
ساری دنیا نئی بسانی پڑی
صرف آدم سے تو جہاں نہ بنا
جس طرح خاک سے بنا آدم
اُس سہولت سے آسماں نہ بنا
شمس جلتا رہا مرے سر پہ
میں نے چاہا بھی سائباں نہ بنا
روٹھ کر پھر خلیج بڑھتی گئی
کوئی پُل بھی تو درمیاں نہ بنا
اک زمانہ لیا بھروسے نے
یوں اچانک وہ رازداں نہ بنا
سب چلے ساتھ میں ترے اظہر
تجھ اکیلے سے کارواں نہ بنا