گنجینہء اسرار ہے اس رخ کا ہر نقش متیں
ذوق تدبر بانٹتی ہے وہ کشادہ سی جبیں
اب اس سے بڑھ کر کیا بتائیں ان کی بابت ہم نشیں
ان سا نہ ہو گا اس جہاں میں دوجا کوئی بھی حسیں
ہے جاں گسل ماحول میں بھی وہ نوائے زندگی
بے نورئ اوہام میں مینارہء حلم و یقیں
اوج قیامت خیز میں دونوں برابر ہی سہی
پر وہ کمال پیکر بت سرو گلشن میں نہیں
بے داغ اجلا سا بدن، اس پر قبائے نیلگوں
گویا فلک کی گود میں رکھا ہو ابر مرمریں
زلف پریشاں تھی کمر پر اس ادا سے منتشر
جوں دامن شب میں بپا اک زلزلہ سا ہو کہیں
ہر اک کلی کا سر جھکا بار ندامت کے سبب
جب مسکرائی وہ نکل کر باغ میں حور زمیں
کنج ردا کو تھامنا انگشت سے رخسار پر
اپنا گمان ان کا ظہور جلوہء دست مبیں
صدمہ گزار ہجر کے حق میں جزا لکھتے رہے
بیٹھے نہ فرصت سے کبھی اپنے کراما کاتبیں
عشق بتاں سے بھی ملا ہم کو عذاب بے کلی
تسکین دل کے واسطے بس یاد رب العلمیں
ذوق تدبر بانٹتی ہے وہ کشادہ سی جبیں
اب اس سے بڑھ کر کیا بتائیں ان کی بابت ہم نشیں
ان سا نہ ہو گا اس جہاں میں دوجا کوئی بھی حسیں
ہے جاں گسل ماحول میں بھی وہ نوائے زندگی
بے نورئ اوہام میں مینارہء حلم و یقیں
اوج قیامت خیز میں دونوں برابر ہی سہی
پر وہ کمال پیکر بت سرو گلشن میں نہیں
بے داغ اجلا سا بدن، اس پر قبائے نیلگوں
گویا فلک کی گود میں رکھا ہو ابر مرمریں
زلف پریشاں تھی کمر پر اس ادا سے منتشر
جوں دامن شب میں بپا اک زلزلہ سا ہو کہیں
ہر اک کلی کا سر جھکا بار ندامت کے سبب
جب مسکرائی وہ نکل کر باغ میں حور زمیں
کنج ردا کو تھامنا انگشت سے رخسار پر
اپنا گمان ان کا ظہور جلوہء دست مبیں
صدمہ گزار ہجر کے حق میں جزا لکھتے رہے
بیٹھے نہ فرصت سے کبھی اپنے کراما کاتبیں
عشق بتاں سے بھی ملا ہم کو عذاب بے کلی
تسکین دل کے واسطے بس یاد رب العلمیں