دائم
محفلین
برائے تنقید۔۔۔احباب کھل کر بات کریں
سامنے اک شدید مشکل ہے
اس کے پیچھے مزید مشکل ہے
گھر اجڑنے کا ڈر نہیں ہوتا
بے گھری اک مفید مشکل ہے
ایک مشکل میں دوسری مشکل
گویا مشکل کشید مشکل ہے
آج حیرت کا سامنا ہے مجھے
آج گفت و شنید مشکل ہے
لوگ آسانیوں میں ڈھونڈتے ہیں
زندگی کی کلید 'مشکل' ہے
تیرے حربے روایتی ہیں عزیز
میری مشکل جدید مشکل ہے
ارشد عزیز
-----------
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بساطِ سخن پر ایسے ایسے شعراء کی نمود دیکھی کہ خود ادب ان پر ناز کرتا ہے، اردو میں ولی، حاتم، اسیر، برق، رند اور میر سے لے کر غالب، ذوق، ظفر، حالی اور داغ تک بیشمار ایسے شعراء گزرے ہیں جنھوں نے اپنے خونِ جگر سے زمینِ سخن کی آبیاری کی اور شجرِ ادب کو پروان چڑھایا، ان تمام کمالات کے باوجود بہ حیثیت انسان ان کی نثر و شاعری میں سقم، عیب، ابتذال، رکاکت اور خلا کا موجود ہونا امرِ عجیب ہرگز نہیں، شاعر کا مافی الضمیر اور پھر اس کا اظہاریہ ایک مخصوص پیرایہ اور اسلوب کا متقاضی ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ ابلاغ کا فائدہ دیتا ہے، بعض شعراء کے نزدیک ابلاغ ایک طرح سے ثانوی مقصد ہوتا ہے جبکہ شعر کہنے کی غایتِ اولیٰ یہی ہوتی ہے کہ ضمیر نامے کا فقط اظہار کر دیا جائے، یہ سوچ بالکل درست نہیں، کیوں کہ شعر کی غرضِ سامی یہی ہے کہ وہ ابلاغ کی منزل تک پہنچ پائے اور اس مقصد کے لیے اسلوب و ادا و بیان بنیادی سیڑھیاں ہوتی ہیں جن پر چڑھ کر اُس اوج پر پہنچا جا سکتا ہے، محترم شاعرِ مذکور کی اس غزل پر محاسنِ کلام کی جلوہ آرائی کے علاوہ بہت سی جگہوں پر فنی اسقام کا ادراک بھی ہوا ہے، جن کی تفصیل ذیل میں درج کرتا ہوں :
سامنے اک شدید مشکل ہے
اس کے پیچھے مزید مشکل ہے
لفظِ "مشکل" اشتقاق کے اعتبار سے شدت اور ناکامی کا معنیٰ اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے، یہاں یہ کہنا کہ "شدید مشکل" سمجھ سے بالا تر ہے، عربی میں "شدید" کے مشتقات میں "شَدَّ یَشُدُّ" ایک مستقل باب ہے جس کا معنی باندھنا ہے، اس لحاظ سے بھی "مشکل" کیساتھ "شدید" کا لفظ ناقابلِ فہم ہوا چاہتا ہے
مصرعۂ ثانی میں "مزید مشکل" کا بھی یہی حال ہے، لیکن اس قدر ناروا نہیں جتنا پہلا مصرعہ. کیوں کہ "مزید" کا لفظ پیچھے سے نہیں بلکہ آگے سے مناسب رکھتا ہے، لیکن یہاں اس کا عکس ہے
معنوی اور مجموعی اعتبار سے مطلع میں خود کو مشکلات میں محصور ہونے کا جو مضمون باندھا گیا ہے، اس میں قدرے کامیابی نصیب ہوئی ہے لیکن فضائے غزل کو منور کرنے کے لیے آفتاب نکلتے ہی مکمل روشن ہوتا تو اسقام کی تیرگی کافور ہو سکتی تھی جو کہ اکنافِ غزل پر ابھی موجود ہے
گھر اجڑنے کا ڈر نہیں ہوتا
بے گھری اک مفید مشکل ہے
مصرعۂ اوّل میں بھی باریک کا سقم ابھی بھی موجود ہے، دیکھیں کہ جب بے گھری ہوگی تو اس کا مطلب ہے کہ گھر ہی نہیں، اور جب گھر ہی نہیں تو فقط ڈر کے مفقود ہونے پر حصر کرنا چہ معنیٰ دارد؟ بلکہ یوں ہوتا کہ گھر اجڑ ہی نہیں سکتا، یا گھر اجڑنے کا سبب ہی کوئی نہیں، لیکن یہاں صرف اس بات پر حصر کرنا کہ "گھر اجڑنے کا ڈر نہیں ہوگا" تلازمۂ موافق کے عکس کو مستلزم ہے
مصرعۂ ثانی میں "مفید" کا لفظ قابلِ صد ستائش ہے
ایک مشکل میں دوسری مشکل
گویا مشکل کشید مشکل ہے
مصرعۂ اوّل میں مشکل در مشکل کا مضمون اور ترکیب دونوں محلِ نظر ہیں، ترکیب اس لیے کہ مشکل بذاتِ خود مشکل ہے اور اس میں مزید کسی مشکل کا داخلہ اس بنا پر قابلِ قبول نہیں کہ ظلمت جیسے بذاتِ خود ظلمت ہے، لیکن کوئی یہ کہے کہ ظلمت میں ظلمت تو اس کا مطلب ہے کہ ایک ظلمت تو. سلمہ ہے مگر دوسری ظلمت محض نام ہے عدم کا اور عدم چونکہ عدم ہے اور اس کا وجود ثابت کرنا عدم کو عدم نہ ماننا ہے، اس لیے وجود اور عدم میں تفریق لازم ہے، ہاں ایک اعتبار سے مشکل در مشکل کی ترکیب درست قرار دی جا سکتی ہے کہ مشکل کو مشبہ رکھ کر مشبہ بہٖ کسی ایسے لفظ کو رکھا جائے جو تلازمۂ موافق کا حامل بھی ہو اور معدوم و موجود کے اجتماع کا متحمل بالکل نہ ہو،
مصرعۂ ثانی میں ترکیب "مشکل کشید" پر مجھے تحفظات حاصل ہیں ،کیوں کہ فارسی زبان سے ماخوذ مصدر "کشیدن" سے مشتق صیغۂ ماضی مطلق "کشید" بنا، یہاں تقاضا یہ تھا فاعل، صفتِ مشبہ یا إسمِ مصدر کو اس اضافت میں داخل کیا جاتا، لیکن صیغۂ ماضی کی طرف اضافتِ توصیفی شاید ہی کسی شاعر کے دیوان و کلیات میں مل سکے، ہاں فارسی کے اس لفظ میں اردو قاعدہ لگا کر اسے إسمِ کیفیت بنایا جائے تو بات بن سکتی ہے
آج حیرت کا سامنا ہے مجھے
آج گفت و شنید مشکل ہے
سراسر قافیہ پیمائی، حشوِ متوسط ہے اور سوائے اس کے کہ اسے بیان و بدیع سے گہنایا جائے تو درست... ورنہ اس شعر کا ہونا یا نہ ہونا برابر
علمائے ادب کی ایک وصیّت مشہور ہے کہ معنیٰ شاہدِ کلام کی جان ہے، محاورہ اُس کا جسمِ نازنیں ہے اور گہنا اس کا بیان و بدیع ہے، علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ :
مضمونِ عالی وجہِ خوبئِ شعر ہے
(غزل 220، شعر 1)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ :
معانی میں نازُک تفصیل ہمیشہ لُطف دیتی ہے
(غزل 184، شعر 1)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
ندرتِ مضمون اور محاکات لطفِ شعر کے اسباب میں سے ہے
(غزل 180، شعر 2)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
محاورے کا حسن اور بندش کی ادا مضمونِ مبتذل کو تازہ کر دیتی ہے
(غزل 175، شعر 2)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
بندش کے حُسن اور زبان کے مزے کے آگے اساتذہ ضعفِ معنیٰ کو بھی گرارا کر لیتے ہیں
(غزل 161، شعر 1)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
دونوں مصرعوں کی بندش میں ترکیب کا تشابہ حُسن پیدا کرتا ہے
(غزل 203، شعر 7-
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
کلام میں کئی پہلو ہونا کوئی خوبی نہیں بلکہ سست و ناروا یے، ہاں معانی کا بہت ہونا بڑی خوبی ہے اور ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے
(غزل 216، شعر
ان تمام نکات کی روشنی میں دیکھا جائے تو مذکورِ بالا شعر کسی بھی طرح شعریت کا حامل نہیں بلکہ محض دو سطور ہیں، فقط
لوگ آسانیوں میں ڈھونڈتے ہیں
زندگی کی کلید 'مشکل' ہے
شعر کا دوسرا مصرعہ ایک اہم درس دے رہا ہے، لیکن اس کا پہلے مصرعے سے ربط بالکل بھی نہیں بن پا رہا، پہلا جملہ خبریہ ہے اور دوسرا بھی خبر ہے، پہلا مصرعہ انشائیہ ہوتا تو معنیٰ نکل سکتا تھا، مگر لوگ آسانی میں کیا ڈھونڈتے ہیں؟ اس کی تصریح مفقود ہے، اگر یہ کہا جائے کہ لوگ "زندگی کی کلید" ڈھونڈتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ زندگی کی کلید اور آسانیاں دو الگ الگ چیزیں ہیں، زندگی کا مطلب زندہ رہنا، اور اس کی کلید کا معنیٰ ہوا کہ زندہ رہنے کی کلید، اب ظاہر ہے کہ زندگی کی کلید کا آسانی سے کیا ربط ہے؟ بالکل بھی نہیں، دوسرا مصرعہ بہرحال کارنامہ ہے اور لائقِ صد ستائش ہے
تیرے حربے روایتی ہیں عزیز
میری مشکل جدید مشکل ہے
حربے کے مقابلے میں تدبیر، طریقہ، دفاع وغیرہ ہوتا تو شعع زمین سے آسمان پر پہنچ جاتا لیکن یہاں ایک طرح سے روایت شکنی کی گئی اور ثانیاً "جدید مشکل" کی ترکیب بھی غیر اہم ہے، کیوں کہ مشکل ک تعلق ازمنۂ ثلاثہ میں سے کسی ایک سے بھی نہیں ہے، بلکہ مشکل کی ماہیت اور کنہ ہر دور میں ایک ہی رہی ہے، مصارع کو اگر غیر مربوط کہا جائے تو بے جا نہیں
والسلام... غلام مصطفیٰ دائم اعوان
سامنے اک شدید مشکل ہے
اس کے پیچھے مزید مشکل ہے
گھر اجڑنے کا ڈر نہیں ہوتا
بے گھری اک مفید مشکل ہے
ایک مشکل میں دوسری مشکل
گویا مشکل کشید مشکل ہے
آج حیرت کا سامنا ہے مجھے
آج گفت و شنید مشکل ہے
لوگ آسانیوں میں ڈھونڈتے ہیں
زندگی کی کلید 'مشکل' ہے
تیرے حربے روایتی ہیں عزیز
میری مشکل جدید مشکل ہے
ارشد عزیز
-----------
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بساطِ سخن پر ایسے ایسے شعراء کی نمود دیکھی کہ خود ادب ان پر ناز کرتا ہے، اردو میں ولی، حاتم، اسیر، برق، رند اور میر سے لے کر غالب، ذوق، ظفر، حالی اور داغ تک بیشمار ایسے شعراء گزرے ہیں جنھوں نے اپنے خونِ جگر سے زمینِ سخن کی آبیاری کی اور شجرِ ادب کو پروان چڑھایا، ان تمام کمالات کے باوجود بہ حیثیت انسان ان کی نثر و شاعری میں سقم، عیب، ابتذال، رکاکت اور خلا کا موجود ہونا امرِ عجیب ہرگز نہیں، شاعر کا مافی الضمیر اور پھر اس کا اظہاریہ ایک مخصوص پیرایہ اور اسلوب کا متقاضی ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ ابلاغ کا فائدہ دیتا ہے، بعض شعراء کے نزدیک ابلاغ ایک طرح سے ثانوی مقصد ہوتا ہے جبکہ شعر کہنے کی غایتِ اولیٰ یہی ہوتی ہے کہ ضمیر نامے کا فقط اظہار کر دیا جائے، یہ سوچ بالکل درست نہیں، کیوں کہ شعر کی غرضِ سامی یہی ہے کہ وہ ابلاغ کی منزل تک پہنچ پائے اور اس مقصد کے لیے اسلوب و ادا و بیان بنیادی سیڑھیاں ہوتی ہیں جن پر چڑھ کر اُس اوج پر پہنچا جا سکتا ہے، محترم شاعرِ مذکور کی اس غزل پر محاسنِ کلام کی جلوہ آرائی کے علاوہ بہت سی جگہوں پر فنی اسقام کا ادراک بھی ہوا ہے، جن کی تفصیل ذیل میں درج کرتا ہوں :
سامنے اک شدید مشکل ہے
اس کے پیچھے مزید مشکل ہے
لفظِ "مشکل" اشتقاق کے اعتبار سے شدت اور ناکامی کا معنیٰ اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے، یہاں یہ کہنا کہ "شدید مشکل" سمجھ سے بالا تر ہے، عربی میں "شدید" کے مشتقات میں "شَدَّ یَشُدُّ" ایک مستقل باب ہے جس کا معنی باندھنا ہے، اس لحاظ سے بھی "مشکل" کیساتھ "شدید" کا لفظ ناقابلِ فہم ہوا چاہتا ہے
مصرعۂ ثانی میں "مزید مشکل" کا بھی یہی حال ہے، لیکن اس قدر ناروا نہیں جتنا پہلا مصرعہ. کیوں کہ "مزید" کا لفظ پیچھے سے نہیں بلکہ آگے سے مناسب رکھتا ہے، لیکن یہاں اس کا عکس ہے
معنوی اور مجموعی اعتبار سے مطلع میں خود کو مشکلات میں محصور ہونے کا جو مضمون باندھا گیا ہے، اس میں قدرے کامیابی نصیب ہوئی ہے لیکن فضائے غزل کو منور کرنے کے لیے آفتاب نکلتے ہی مکمل روشن ہوتا تو اسقام کی تیرگی کافور ہو سکتی تھی جو کہ اکنافِ غزل پر ابھی موجود ہے
گھر اجڑنے کا ڈر نہیں ہوتا
بے گھری اک مفید مشکل ہے
مصرعۂ اوّل میں بھی باریک کا سقم ابھی بھی موجود ہے، دیکھیں کہ جب بے گھری ہوگی تو اس کا مطلب ہے کہ گھر ہی نہیں، اور جب گھر ہی نہیں تو فقط ڈر کے مفقود ہونے پر حصر کرنا چہ معنیٰ دارد؟ بلکہ یوں ہوتا کہ گھر اجڑ ہی نہیں سکتا، یا گھر اجڑنے کا سبب ہی کوئی نہیں، لیکن یہاں صرف اس بات پر حصر کرنا کہ "گھر اجڑنے کا ڈر نہیں ہوگا" تلازمۂ موافق کے عکس کو مستلزم ہے
مصرعۂ ثانی میں "مفید" کا لفظ قابلِ صد ستائش ہے
ایک مشکل میں دوسری مشکل
گویا مشکل کشید مشکل ہے
مصرعۂ اوّل میں مشکل در مشکل کا مضمون اور ترکیب دونوں محلِ نظر ہیں، ترکیب اس لیے کہ مشکل بذاتِ خود مشکل ہے اور اس میں مزید کسی مشکل کا داخلہ اس بنا پر قابلِ قبول نہیں کہ ظلمت جیسے بذاتِ خود ظلمت ہے، لیکن کوئی یہ کہے کہ ظلمت میں ظلمت تو اس کا مطلب ہے کہ ایک ظلمت تو. سلمہ ہے مگر دوسری ظلمت محض نام ہے عدم کا اور عدم چونکہ عدم ہے اور اس کا وجود ثابت کرنا عدم کو عدم نہ ماننا ہے، اس لیے وجود اور عدم میں تفریق لازم ہے، ہاں ایک اعتبار سے مشکل در مشکل کی ترکیب درست قرار دی جا سکتی ہے کہ مشکل کو مشبہ رکھ کر مشبہ بہٖ کسی ایسے لفظ کو رکھا جائے جو تلازمۂ موافق کا حامل بھی ہو اور معدوم و موجود کے اجتماع کا متحمل بالکل نہ ہو،
مصرعۂ ثانی میں ترکیب "مشکل کشید" پر مجھے تحفظات حاصل ہیں ،کیوں کہ فارسی زبان سے ماخوذ مصدر "کشیدن" سے مشتق صیغۂ ماضی مطلق "کشید" بنا، یہاں تقاضا یہ تھا فاعل، صفتِ مشبہ یا إسمِ مصدر کو اس اضافت میں داخل کیا جاتا، لیکن صیغۂ ماضی کی طرف اضافتِ توصیفی شاید ہی کسی شاعر کے دیوان و کلیات میں مل سکے، ہاں فارسی کے اس لفظ میں اردو قاعدہ لگا کر اسے إسمِ کیفیت بنایا جائے تو بات بن سکتی ہے
آج حیرت کا سامنا ہے مجھے
آج گفت و شنید مشکل ہے
سراسر قافیہ پیمائی، حشوِ متوسط ہے اور سوائے اس کے کہ اسے بیان و بدیع سے گہنایا جائے تو درست... ورنہ اس شعر کا ہونا یا نہ ہونا برابر
علمائے ادب کی ایک وصیّت مشہور ہے کہ معنیٰ شاہدِ کلام کی جان ہے، محاورہ اُس کا جسمِ نازنیں ہے اور گہنا اس کا بیان و بدیع ہے، علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ :
مضمونِ عالی وجہِ خوبئِ شعر ہے
(غزل 220، شعر 1)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ :
معانی میں نازُک تفصیل ہمیشہ لُطف دیتی ہے
(غزل 184، شعر 1)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
ندرتِ مضمون اور محاکات لطفِ شعر کے اسباب میں سے ہے
(غزل 180، شعر 2)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
محاورے کا حسن اور بندش کی ادا مضمونِ مبتذل کو تازہ کر دیتی ہے
(غزل 175، شعر 2)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
بندش کے حُسن اور زبان کے مزے کے آگے اساتذہ ضعفِ معنیٰ کو بھی گرارا کر لیتے ہیں
(غزل 161، شعر 1)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
دونوں مصرعوں کی بندش میں ترکیب کا تشابہ حُسن پیدا کرتا ہے
(غزل 203، شعر 7-
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
کلام میں کئی پہلو ہونا کوئی خوبی نہیں بلکہ سست و ناروا یے، ہاں معانی کا بہت ہونا بڑی خوبی ہے اور ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے
(غزل 216، شعر
ان تمام نکات کی روشنی میں دیکھا جائے تو مذکورِ بالا شعر کسی بھی طرح شعریت کا حامل نہیں بلکہ محض دو سطور ہیں، فقط
لوگ آسانیوں میں ڈھونڈتے ہیں
زندگی کی کلید 'مشکل' ہے
شعر کا دوسرا مصرعہ ایک اہم درس دے رہا ہے، لیکن اس کا پہلے مصرعے سے ربط بالکل بھی نہیں بن پا رہا، پہلا جملہ خبریہ ہے اور دوسرا بھی خبر ہے، پہلا مصرعہ انشائیہ ہوتا تو معنیٰ نکل سکتا تھا، مگر لوگ آسانی میں کیا ڈھونڈتے ہیں؟ اس کی تصریح مفقود ہے، اگر یہ کہا جائے کہ لوگ "زندگی کی کلید" ڈھونڈتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ زندگی کی کلید اور آسانیاں دو الگ الگ چیزیں ہیں، زندگی کا مطلب زندہ رہنا، اور اس کی کلید کا معنیٰ ہوا کہ زندہ رہنے کی کلید، اب ظاہر ہے کہ زندگی کی کلید کا آسانی سے کیا ربط ہے؟ بالکل بھی نہیں، دوسرا مصرعہ بہرحال کارنامہ ہے اور لائقِ صد ستائش ہے
تیرے حربے روایتی ہیں عزیز
میری مشکل جدید مشکل ہے
حربے کے مقابلے میں تدبیر، طریقہ، دفاع وغیرہ ہوتا تو شعع زمین سے آسمان پر پہنچ جاتا لیکن یہاں ایک طرح سے روایت شکنی کی گئی اور ثانیاً "جدید مشکل" کی ترکیب بھی غیر اہم ہے، کیوں کہ مشکل ک تعلق ازمنۂ ثلاثہ میں سے کسی ایک سے بھی نہیں ہے، بلکہ مشکل کی ماہیت اور کنہ ہر دور میں ایک ہی رہی ہے، مصارع کو اگر غیر مربوط کہا جائے تو بے جا نہیں
والسلام... غلام مصطفیٰ دائم اعوان