محمد اظہر نذیر
محفلین
تصورِ، پیار میں گُم، یار سوتے لکھ دیا میں نے
قلم کی نوک سے یوں زار روتے لکھ دیا میں نے
جو باتیں کہہ نہیں پایا کبھی بھی سامنے اُنکے
وہ سب کچھ نیر اپنے سے بھگوتے لکھ دیا میں نے
محبت تھی مری کتنے زمانوں سے تڑپتی پر
اُسے بس دو ہی سطروں میں سموتے لکھ دیا میں نے
مرے ماضی کی تختی بے وفائ سے بھری تھی پر
اُسے بھی عشق سے مل مل کے دھوتے لکھ دیا میں نے
بڑی مشکل سے اظہر نے چھپایا تھا جسے اب تک
اُسے اک صبح کے انجام ہوتے لکھ دیا میں نے
قلم کی نوک سے یوں زار روتے لکھ دیا میں نے
جو باتیں کہہ نہیں پایا کبھی بھی سامنے اُنکے
وہ سب کچھ نیر اپنے سے بھگوتے لکھ دیا میں نے
محبت تھی مری کتنے زمانوں سے تڑپتی پر
اُسے بس دو ہی سطروں میں سموتے لکھ دیا میں نے
مرے ماضی کی تختی بے وفائ سے بھری تھی پر
اُسے بھی عشق سے مل مل کے دھوتے لکھ دیا میں نے
بڑی مشکل سے اظہر نے چھپایا تھا جسے اب تک
اُسے اک صبح کے انجام ہوتے لکھ دیا میں نے