کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک نسبتاََ پرانی غزل چند اشعار کے اضافوں کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔
وہ اپنی ابروِ خمدار کو عنواں میں رکھتے ہیں
تو ہم اب گردشِ پرکار کو امکاں میں رکھتے ہیں
مرے سوزِ دروں کا حال کیا پوچھو، وہ حالت ہے
تپش ایسی تو شعلےِ آتشِ جولاں میں رکھتے ہیں
مماثل ہو نہ جائیں اک چھلکتے جام کے ، سو ہم
تمھاری یاد کو خُفتَہ، شبِ حجراں میں رکھتے ہیں
نفس یک دو نفس کی زندگانی کا بھروسہ کیا
طلب دنیا کی کیوں بندے دلِ ناداں میں رکھتے ہیں
فراخی کیا بتاتا ہے، عدن کے باغ کی واعظ
ہم ایسی وسعتیں تو تنگئی داماں میں رکھتے ہیں
مجھے دے لذّتِ آشوب وہ لطفِ فُغاں، جس کو
چھپا کر چشمِ آدم سے مَلَک داماں میں رکھتے ہیں
لبِ ساحل سے تھوڑی دور ہے ریگِ رواں پیاسی
اور ایسی تشنگی ہم دل کے ہر ارماں میں رکھتے ہیں
گرہ رشتوں میں ہے کاشف مگر حیرت ہے، ہم پھر بھی
اسے شامل دعاؤں میں ہر اک امکاں میں رکھتے ہیں
سیّد کاشف
14، April 2017
وہ اپنی ابروِ خمدار کو عنواں میں رکھتے ہیں
تو ہم اب گردشِ پرکار کو امکاں میں رکھتے ہیں
مرے سوزِ دروں کا حال کیا پوچھو، وہ حالت ہے
تپش ایسی تو شعلےِ آتشِ جولاں میں رکھتے ہیں
مماثل ہو نہ جائیں اک چھلکتے جام کے ، سو ہم
تمھاری یاد کو خُفتَہ، شبِ حجراں میں رکھتے ہیں
نفس یک دو نفس کی زندگانی کا بھروسہ کیا
طلب دنیا کی کیوں بندے دلِ ناداں میں رکھتے ہیں
فراخی کیا بتاتا ہے، عدن کے باغ کی واعظ
ہم ایسی وسعتیں تو تنگئی داماں میں رکھتے ہیں
مجھے دے لذّتِ آشوب وہ لطفِ فُغاں، جس کو
چھپا کر چشمِ آدم سے مَلَک داماں میں رکھتے ہیں
لبِ ساحل سے تھوڑی دور ہے ریگِ رواں پیاسی
اور ایسی تشنگی ہم دل کے ہر ارماں میں رکھتے ہیں
گرہ رشتوں میں ہے کاشف مگر حیرت ہے، ہم پھر بھی
اسے شامل دعاؤں میں ہر اک امکاں میں رکھتے ہیں
سیّد کاشف
14، April 2017