فہد اشرف
محفلین
ایک غمگین یاد
مرے پہلو بہ پہلو جب وہ چلتی تھی گلستاں میں
فراز آسماں پر کہکشاں حسرت سے تکتی تھی
محبت جب چمک اٹھتی تھی اس کی چشم خنداں میں
خمستان فلک سے نور کی صہبا چھلکتی تھی
مرے بازو پہ جب وہ زلف شب گوں کھول دیتی تھی
زمانہ نکہتِ خلد بریں میں ڈوب جاتا تھا
مرے شانے پہ جب سر رکھ کے ٹھنڈی سانس لیتی تھی
مری دنیا میں سوز و ساز کا طوفان آتا تھا
وہ میرا شعر جب میری ہی لَے میں گنگناتی تھی
مناظر جھومتے تھے بام و در کو وجد آتا تھا
مری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب مسکراتی تھی
مرے ظلمت کدے کا ذرہ ذرہ جگمگاتا تھا
امنڈ آتے تھے جب اشکِ محبت اس کی پلکوں تک
ٹپکتی تھی در و دیوار سے شوخی تبسم کی
جب اس کے ہونٹ آ جاتے تھے از خود میرے ہونٹوں تک
جھپک جاتی تھیں آنکھیں آسماں پر ماہ و انجم کی
وہ جب ہنگامِ رخصت دیکھتی تھی مجھ کو مڑ مڑ کر
تو خود فطرت کے دل میں محشر جذبات ہوتا تھا
وہ محو خواب جب ہوتی تھی اپنے نرم بستر پر
تو اس کے سر پہ مریم کا مقدس ہاتھ ہوتا تھا
خبر کیا تھی کہ وہ اک روز مجھ کو بھول جائے گی
اور اس کی یاد مجھ کو خون کے آنسو رلائے گی
مرے پہلو بہ پہلو جب وہ چلتی تھی گلستاں میں
فراز آسماں پر کہکشاں حسرت سے تکتی تھی
محبت جب چمک اٹھتی تھی اس کی چشم خنداں میں
خمستان فلک سے نور کی صہبا چھلکتی تھی
مرے بازو پہ جب وہ زلف شب گوں کھول دیتی تھی
زمانہ نکہتِ خلد بریں میں ڈوب جاتا تھا
مرے شانے پہ جب سر رکھ کے ٹھنڈی سانس لیتی تھی
مری دنیا میں سوز و ساز کا طوفان آتا تھا
وہ میرا شعر جب میری ہی لَے میں گنگناتی تھی
مناظر جھومتے تھے بام و در کو وجد آتا تھا
مری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب مسکراتی تھی
مرے ظلمت کدے کا ذرہ ذرہ جگمگاتا تھا
امنڈ آتے تھے جب اشکِ محبت اس کی پلکوں تک
ٹپکتی تھی در و دیوار سے شوخی تبسم کی
جب اس کے ہونٹ آ جاتے تھے از خود میرے ہونٹوں تک
جھپک جاتی تھیں آنکھیں آسماں پر ماہ و انجم کی
وہ جب ہنگامِ رخصت دیکھتی تھی مجھ کو مڑ مڑ کر
تو خود فطرت کے دل میں محشر جذبات ہوتا تھا
وہ محو خواب جب ہوتی تھی اپنے نرم بستر پر
تو اس کے سر پہ مریم کا مقدس ہاتھ ہوتا تھا
خبر کیا تھی کہ وہ اک روز مجھ کو بھول جائے گی
اور اس کی یاد مجھ کو خون کے آنسو رلائے گی
1941
(مجموعۂ کلام : آہنگ)