محمد اظہر نذیر
محفلین
صبح روشن کو مسا جانتا ہوں
کس طرف کی ہے ہوا، جانتا ہوں
کچھ نہیں اُس کے سوا دنیا میں
پوچھتا ہے کہ میں کیا جانتا ہوں
چھوڑ جائے گا وہ تنہا اک دن
جانتا ہوں بخدا جانتا ہوں
پربتوں بیچ پُکارا اُس کو
گھوم آئے گی صدا، جانتا ہوں
رہ گئی ہجر میں باقی اُس کے
کچھ نہیں اور ہوا، جانتا ہوں
بہتری اس میں بھی کوئی ہو گی
میرے اللہ رضا جانتا ہوں
فلسفہ اور بھی کوئی ہو گا
کیا فنا، کیا ہے بقا جانتا ہوں
کیوں اُتر آئے ہیں چھوٹے پن پر
آپ کو میں تو بڑا جانتا ہوں
انکساری پہ مری شک کیونکر
سب بُروں کو میں بھلا جانتا ہوں
بس دکھاتا ہے ادائیں اظہر
وہ نہیں مجھ سے خفا، جانتا ہوں
کس طرف کی ہے ہوا، جانتا ہوں
کچھ نہیں اُس کے سوا دنیا میں
پوچھتا ہے کہ میں کیا جانتا ہوں
چھوڑ جائے گا وہ تنہا اک دن
جانتا ہوں بخدا جانتا ہوں
پربتوں بیچ پُکارا اُس کو
گھوم آئے گی صدا، جانتا ہوں
رہ گئی ہجر میں باقی اُس کے
کچھ نہیں اور ہوا، جانتا ہوں
بہتری اس میں بھی کوئی ہو گی
میرے اللہ رضا جانتا ہوں
فلسفہ اور بھی کوئی ہو گا
کیا فنا، کیا ہے بقا جانتا ہوں
کیوں اُتر آئے ہیں چھوٹے پن پر
آپ کو میں تو بڑا جانتا ہوں
انکساری پہ مری شک کیونکر
سب بُروں کو میں بھلا جانتا ہوں
بس دکھاتا ہے ادائیں اظہر
وہ نہیں مجھ سے خفا، جانتا ہوں