ویڈیو واقعی اپنے طرز کے منفرد تحقیقات میں سے ایک ہے لیکن میرے خیال میں اس میں کمال کی بات تفتیش کا طریقۂ کار نہیں۔ کیوں کہ کرائم فورنسِک، آرمی طریقۂ تحقیق اسی طریقے سے ہوتی ہے۔ جو تقریبا ہر فوج اور بڑے ادارے کا معمول ہے۔ جہاں تک پہاڑی سلسلے کے پیٹرن کو (دکھائے گئے طریقہ کار کے مطابق) تھری ڈی ٹوپولوجی سے میچ کرنے کا تعلق ہے تو کیمرونی ذرائع سے ملنے والی ٹِپ کے بغیر بی بی سی کے تحقیق کاروں کا یہ طریقہ غیرمنطقی لیکن تحقیق میں دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔
سب سے زیادہ دلچسپی کے نکات تحقیق سے پہلے گورنمنٹ اور فوج کا اپنے لاڈلوں کو ”فرشتے“ ثابت کرنا ہے۔ یہی سب ہماری فوج میں موجود کالی بھیڑیوں، اور ٹریننگ کے دوران تیار کیے گئے فرعونوں نے بھی کیا ہے جس پر میڈیا میں ایک دو بار دو تین صحافیوں نے زبانیں کھولنے کی کوشش کی ہے لیکن ”دشمن خوش ہوجائے گا“ کے نام پر سب کچھ خاموش کردیا گیا۔ یہ تو شکر ہے فوج میں موجود کچھ افراد نے ریکارڈ کیے گئے ویڈیوز کو لیک کیا یا مغربی ایجنسیوں کے ہیک کیے گئے ڈیٹا سے حاصل کیے گئے شواہد کو سوشل میڈیا کے ذریعے چند قبائلی نوجوانوں نے عوام کو بھرپور اور ناقابلِ تردید حقائق سے آگاہ کیا وگرنہ یہ ظلم وستم اور درندگی ”فوجی فرشتوں“ کے ہاتھوں کب تک جاری رہتا۔ عبرت کا مقام ہے کہ پاکستان کے آسمانی ادارے میں ابھی تک کسی کو سزا تو درکنار نامزد بھی نہیں کیا گیا۔