محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ایک لوٹے کی غزل
محمد خلیل الرحمٰن
(حبیب جالب سے معذرت کے ساتھ)
آج اِک پارٹی، کل نئی پارٹی میں بدلتا رہا
’’اُڑتے پتوں کے پیچھے اُڑاتا رہا شوقِ آوارگی‘‘
پارٹی کے ’’بہت کم نظر لوگ تھے، فتنہ گر لوگ تھے‘‘
’’زخم کھاتا رہا ، مسکراتا رہا، شوقِ آوارگی‘‘
مجھ کو عہدہ نہ پرمِٹ ہی کوئی مِلا، پھر بھی شام و سحر
ناز لیڈر کے میں ہی اُٹھاتا رہا، شوقِ آوارگی
ہاں وِزارت ملے، ’’غنچہٗ دِل کھِلے، چاک دِل کا سِلے‘‘
’’ہر قدم پر نگاہیں بچھاتا رہا، شوقِ آوارگی‘‘
دشمنِ جاں اراکینِ شوریٰ سبھی، کوئی اپنا نہیں
دھوکے اِن سب سے پھر بھی میں کھاتا رہا، شوقِ آوارگی
محمد خلیل الرحمٰن
(حبیب جالب سے معذرت کے ساتھ)
آج اِک پارٹی، کل نئی پارٹی میں بدلتا رہا
’’اُڑتے پتوں کے پیچھے اُڑاتا رہا شوقِ آوارگی‘‘
پارٹی کے ’’بہت کم نظر لوگ تھے، فتنہ گر لوگ تھے‘‘
’’زخم کھاتا رہا ، مسکراتا رہا، شوقِ آوارگی‘‘
مجھ کو عہدہ نہ پرمِٹ ہی کوئی مِلا، پھر بھی شام و سحر
ناز لیڈر کے میں ہی اُٹھاتا رہا، شوقِ آوارگی
ہاں وِزارت ملے، ’’غنچہٗ دِل کھِلے، چاک دِل کا سِلے‘‘
’’ہر قدم پر نگاہیں بچھاتا رہا، شوقِ آوارگی‘‘
دشمنِ جاں اراکینِ شوریٰ سبھی، کوئی اپنا نہیں
دھوکے اِن سب سے پھر بھی میں کھاتا رہا، شوقِ آوارگی