ایک مزید غزل "شاہدِ نورِ طور کیا جانیں"

غزل​
شاہد نور طور کیا جانیں​
میرا غم ذی شعور کیا جانیں​
جو گزرتی ہے عشق ماروں پر​
اہلیانِ قبور کیا جانیں​
ہم انہیں روزِ حشر جنکے ہو​
پاس پہلو میں حور، کیا جانیں​
(اشارہ: اردو محاورہ:۔ حور کے پہلو میں لنگور)​
شیخ جانیں نہیں جو طعمِ شراب​
طعمِ جامِ طہور کیا جانیں​
چاہِ الفت میں جب گرے ہی نہیں​
فرقِ بینا و کور کیا جانیں​
تم جسے اپنا رازداں سمجھو!​
ہم اسے بے قصور کیا جانیں​
وہ جو کہتے ہیں "ہم ہیں مصروف آج!"​
راز کیا ہے حضور کیا جانیں​
حسن کس کا ہے کیوں ہے کیسا ہے​
ارنی گوئے طور کیا جانیں​
شعر کہتا ہوں مثلِ بحر حجاز!​
ہم سے سوقی بحور کیا جانیں​
مہدی نقوی حجاز​
 

حسان خان

لائبریرین
بہت خوب مہدی صاحب :)

اردو میں کور کو بر وزنِ چور واوِ مجہول سے پڑھا جاتا ہے، جبکہ آپ نے ایرانی فارسی کی طرز پر اسے معروف باندھا ہے جو شاید درست نہ مانا جاتا ہو۔
 

الف عین

لائبریرین
اوہو، انشاء اللہ اسے اب دیکھتا ہوں۔ حسان خان کی بات درست ہے۔ اردو میں کور کا یہی تلفظ ہوتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
شاہد نور طور کیا جانیں
میرا غم ذی شعور کیا جانیں
//مطلع سمجھ میں نہیں آ سکا، شک ہے کہ دو لخت ہے

جو گزرتی ہے عشق ماروں پر
اہلیانِ قبور کیا جانیں
//عشق کے ماروں پر گزرے یا کسی اور پر کچھ بھی گذرے، مرنے والوں کو کس کا احساس ہے؟

ہم انہیں روزِ حشر جنکے ہو
پاس پہلو میں حور، کیا جانیں
(اشارہ: اردو محاورہ:۔ حور کے پہلو میں لنگور)
//بیانیہ ’اوبڑ کھابڑ‘ ہے، چست نہیں

شیخ جانیں نہیں جو طعمِ شراب
طعمِ جامِ طہور کیا جانیں
//طعم بھی فارسی ہی ہے، اردو میں مستعمل نہیں، بہر حال درست ہے۔

چاہِ الفت میں جب گرے ہی نہیں
فرقِ بینا و کور کیا جانیں
//کور پر بات ہو چکی ہے

تم جسے اپنا رازداں سمجھو!
ہم اسے بے قصور کیا جانیں
//یہاں بھی قافیہ کا کیا محل ہے؟

وہ جو کہتے ہیں "ہم ہیں مصروف آج!"
راز کیا ہے حضور کیا جانیں
//مصروفیت اور راز کا تعلق؟
حسن کس کا ہے کیوں ہے کیسا ہے
ارنی گوئے طور کیا جانیں
//تلمیح خوب ہے، لیکن عربی فارسی مخلوط ترکیب پسند نہیں آئی۔

شعر کہتا ہوں مثلِ بحر حجاز!
ہم سے سوقی بحور کیا جانیں
//یہ بھی سمجھ میں نہیں آ سکا
 
شاہد نور طور کیا جانیں
میرا غم ذی شعور کیا جانیں
//مطلع سمجھ میں نہیں آ سکا، شک ہے کہ دو لخت ہے
اس شعر میں میری یہ مراد ہے کہ شاہدِ نورِ طور نے جو نور دیکھا تھا تو وہ اس پر ہی 'خرّموسیٰ صاعقیٰ' ہو گئے تھے یعنی گر پڑے تھے۔ میں نے جو نور دیکھا ہے وہ اسکے مقابلے میں بہت زیادہ پر زور تھا۔ اور اس بات کو اہل خرد کہاں جان سکتے ہیں کہ ایک عاشق کے لیے اپنے محبوب کا حسن(یہاں نور) کتنا ہوش ربا ہوتا ہے۔
جو گزرتی ہے عشق ماروں پر
اہلیانِ قبور کیا جانیں
//عشق کے ماروں پر گزرے یا کسی اور پر کچھ بھی گذرے، مرنے والوں کو کس کا احساس ہے؟
یعنی مرے تو دونوں ہی ہیں اور تکلیف تو دونوں ہی کو ہوئی ہے۔ البتہ مرنے والے کہاں جان سکتے ہیں کہ جو عشق کے مارے ہیں انکو کیسی تکلیف ہے۔
ہم انہیں روزِ حشر جنکے ہو
پاس پہلو میں حور، کیا جانیں
(اشارہ: اردو محاورہ:۔ حور کے پہلو میں لنگور)
//بیانیہ ’اوبڑ کھابڑ‘ ہے، چست نہیں
جی مجھے اسکا احساس تھا۔ لیکن خیال نیا تھا اس لیے باندھ دیا۔
شیخ جانیں نہیں جو طعمِ شراب
طعمِ جامِ طہور کیا جانیں
//طعم بھی فارسی ہی ہے، اردو میں مستعمل نہیں، بہر حال درست ہے۔

اچھا جی!
چاہِ الفت میں جب گرے ہی نہیں
فرقِ بینا و کور کیا جانیں
//کور پر بات ہو چکی ہے
شاید اسے قلم زد کرنا ہی بہتر ہوگا۔
تم جسے اپنا رازداں سمجھو!
ہم اسے بے قصور کیا جانیں
//یہاں بھی قافیہ کا کیا محل ہے؟
معشوق سے شکوہ ہے کہ جب تمہارے نزدیک کوئی اتنا معتبر ہے کہ جو بات تم ہمیں نہیں بتاتے وہ اسکو معلوم ہے۔ تو ظاہر ہے کہ دل میں کچھ کالا ہے۔ ویسے یہ شعر بھی قلم زد ہونے لائق ہے۔
وہ جو کہتے ہیں "ہم ہیں مصروف آج!"
راز کیا ہے حضور کیا جانیں
//مصروفیت اور راز کا تعلق؟
جب ہم ان سے ملنے کا کہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم آج مصروف ہیں۔ تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ انہیں آج رقیب کے ساتھ کہیں جانا ہے۔
حسن کس کا ہے کیوں ہے کیسا ہے
ارنی گوئے طور کیا جانیں
//تلمیح خوب ہے، لیکن عربی فارسی مخلوط ترکیب پسند نہیں آئی۔
بہتری کے لیے سوچتا ہوں!

شعر کہتا ہوں مثلِ بحر حجاز!
ہم سے سوقی بحور کیا جانیں
//یہ بھی سمجھ میں نہیں آ سکا
یہ تقریباً رومی کے اس شعر کا ترجمہ ہے:
شعر می گویم بہ از آبِ حیات
من ندانم فاعلاتن فاعلات

حضور کی اصلاح نوازی کا بیحد شکریہ!
 
Top