نہیں کچھ قصور اس مری جان کا
مجھے ہی مرض ہے یہ انسان کا
ذرا دیکھ لے دنیا لگتا ہوا
تماشہ مجھ اک پل کے مہمان کا
بھلا دوں گا میں اپنا آپ ایک دن
کہ ہوں منتظر اس کے فرمان کا
یہ دنیا سمجھ داروں کی ہے عظیم
یہاں کام کیا مجھ سے نادان کا
بس اک ہے جو لگتا ہے اپنا مجھے
بس اک شخص میری بھی پہچان کا
دعاؤں پہ بہتی ہوئی ناؤ اک
امیدوں پہ اک پھول گلدان کا
کروں شکر کیسے ادا میں عظیم
بہت مجھ پہ احساں ہے سلطان کا