فاتح
لائبریرین
فرینکفرٹ میں ہونے والے ایک حالیہ مشاعرے میں چھ سامعین اور باقی سب شعرا تھے اور اس محفل مشاعرہ کی کاروائی اسی لیے سوائے ایک نام نہاد خبر رساں ایجنسی کے اور کہیں بھی شائع نہیں ہوئی۔
اس سے قبل برلن میں ہونے والے ادبی تقریب جس کو پاکستانی سفارتخانے کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی وہاں بھی سامعین کی تعداد اسی تناسب سے تھی اور اسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹوں میں ارسال کردہ تصاویر میں اسی باعث کوئی ایک تصویر بھی سامعین کی نہیں ہے۔
برلن کے بعد فرینکفرٹ میں ہونے مشاعرے کی صورت حال بھی نہایت ابتر تھی اور خود مشاعرے میں موجود ایک شاعر کے مطابق اس مشاعرے میں صرف چھ سامعین تھے باقی تمام جبکہ شعر سنانے والے تھے اور ان میں شاعر دو اور باقی متشاعر تھے۔ ہمارے مصدقہ ذریعے کے مطابق چھ سامعین میں سے دوسامع شاعر طاہر عدیم کے بھائی،دو بھتیجے اور دو دیگر افراد تھے۔
مشاعرے کی ابتدائی نظامت جرمنی کے شاعر اور شریف اکیڈمی کے سربراہ شفیق مراد کر رہے تھے اور انہوں نےمقامی شعرا نہیں بلکہ متشاعر حضرات کو پڑھوانےکے بعد طاہر عدیم کو اسٹیج پر مدعو کیا۔
وہ پہلی غزل شعر سنا رہے تھے اور داد پا رہے تھے کہ شفیق مراد نے پرنس آف ‘‘بام‘‘ شکیل چغتائی کے کان میٍں کچھ کہا جس پر طاہر نے اسٹیج سے ہی شفیق مراد سے کہا کہ میں غزل سنا رہا ہوں اور آپ کو مشاعرے کی تہذیب کا علم نہیں ۔آپ یہ باتیں بعد میں کر لیں۔
یہ سن کرشفیق سٹیج سے اتر گئے ۔ پھر جب طاہر عدیم اپنی تیسری غزل سنا رہے تھے تو شفیق مراد نے ایک بار پھر اسٹیج پر جا کر پرنس شکیل کے ساتھ کانا پھوسی کی جس پر طاہر عدیم نے پھر سرزنش کا انداز اختیار کیا جس پر شفیق مراد جیسے نامراد اسٹیج سے اتر آئے۔
طاہر عدیم کے بعد پرنس آف ‘‘بام‘‘ شکیل چغتائی نے شفیق مراد کو غزل کی دعوت دی۔ شفیق نے ایک غزل کے چھ شعر پڑھے اور جب وہ شعر پڑھ کر واپس آ کر بیٹھے تو طاہر عدیم نے سخت لہجے میں شفیق مراد سے کہا کہ تم میرے شاگرد ہو پھر تم نے میرے بعد کیسے پڑھا؟
اس پر شفیق مراد نے پرنس آف "بام" شکیل چغت آئی کو معذرت کے لیے کہا تو شکیل نے معذرت کی لیکن طاہر عدیم کا اصرار تھا کہ یہ معذرت شفیق مراد خود کریں اور شفیق مراد کو معذرت کرنا پڑی ان الفاظ میں کہ طاہر عدیم میرے استاد ہیں اور ہم سے غلطی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں
اس سے قبل برلن میں ہونے والے ادبی تقریب جس کو پاکستانی سفارتخانے کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی وہاں بھی سامعین کی تعداد اسی تناسب سے تھی اور اسی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹوں میں ارسال کردہ تصاویر میں اسی باعث کوئی ایک تصویر بھی سامعین کی نہیں ہے۔
برلن کے بعد فرینکفرٹ میں ہونے مشاعرے کی صورت حال بھی نہایت ابتر تھی اور خود مشاعرے میں موجود ایک شاعر کے مطابق اس مشاعرے میں صرف چھ سامعین تھے باقی تمام جبکہ شعر سنانے والے تھے اور ان میں شاعر دو اور باقی متشاعر تھے۔ ہمارے مصدقہ ذریعے کے مطابق چھ سامعین میں سے دوسامع شاعر طاہر عدیم کے بھائی،دو بھتیجے اور دو دیگر افراد تھے۔
مشاعرے کی ابتدائی نظامت جرمنی کے شاعر اور شریف اکیڈمی کے سربراہ شفیق مراد کر رہے تھے اور انہوں نےمقامی شعرا نہیں بلکہ متشاعر حضرات کو پڑھوانےکے بعد طاہر عدیم کو اسٹیج پر مدعو کیا۔
وہ پہلی غزل شعر سنا رہے تھے اور داد پا رہے تھے کہ شفیق مراد نے پرنس آف ‘‘بام‘‘ شکیل چغتائی کے کان میٍں کچھ کہا جس پر طاہر نے اسٹیج سے ہی شفیق مراد سے کہا کہ میں غزل سنا رہا ہوں اور آپ کو مشاعرے کی تہذیب کا علم نہیں ۔آپ یہ باتیں بعد میں کر لیں۔
یہ سن کرشفیق سٹیج سے اتر گئے ۔ پھر جب طاہر عدیم اپنی تیسری غزل سنا رہے تھے تو شفیق مراد نے ایک بار پھر اسٹیج پر جا کر پرنس شکیل کے ساتھ کانا پھوسی کی جس پر طاہر عدیم نے پھر سرزنش کا انداز اختیار کیا جس پر شفیق مراد جیسے نامراد اسٹیج سے اتر آئے۔
طاہر عدیم کے بعد پرنس آف ‘‘بام‘‘ شکیل چغتائی نے شفیق مراد کو غزل کی دعوت دی۔ شفیق نے ایک غزل کے چھ شعر پڑھے اور جب وہ شعر پڑھ کر واپس آ کر بیٹھے تو طاہر عدیم نے سخت لہجے میں شفیق مراد سے کہا کہ تم میرے شاگرد ہو پھر تم نے میرے بعد کیسے پڑھا؟
اس پر شفیق مراد نے پرنس آف "بام" شکیل چغت آئی کو معذرت کے لیے کہا تو شکیل نے معذرت کی لیکن طاہر عدیم کا اصرار تھا کہ یہ معذرت شفیق مراد خود کریں اور شفیق مراد کو معذرت کرنا پڑی ان الفاظ میں کہ طاہر عدیم میرے استاد ہیں اور ہم سے غلطی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں