محمود احمد غزنوی
محفلین
ایک مشاہدہ
کبھی کبھی مِری دستک پہ کہیںچند کلیاں سی ایک چہرے پر ۔ ۔ ۔ ۔
مسکراہٹ کی طرح کھلتی تھیں۔۔۔۔۔
اسکے ہونٹوں کے نرم گوشوں سے
خیر مقدم کے چند لفظوں کی۔ ۔ ۔ ۔
خوشبوئیں چار سو بکھرتی تھیں۔۔۔۔۔۔
جیسے میرے لئیے ہی بکھری ہوں
جیسے میرے ہی من کی باتیں ہوں۔ ۔ ۔ ۔
ان کہی چاہتوں کی باتیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔
آج پھر میری اسی دستک پر
وہی چہرہ گلی میں جھانکا تھا
وہی الفاظ خیر مقدم کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسکے ہونٹوں پہ گرچہ آج بھی تھے
ہاں مگر بے دلی تھی لہجے میں۔ ۔ ۔ ۔
ایک بے نام سی تھکاوٹ تھی۔ ۔ ۔
اور اک رسمی مسکراہٹ تھی۔۔۔۔۔۔
آج خوشبو نہیں ہواؤں میں۔ ۔ ۔ ۔
کس قدر حبس ہے فضاؤں میں۔۔۔۔۔
اب وہی در ہے اور وہی میں ہوں۔ ۔ ۔ ۔
سوچتا ہوں کہ کیسے دستک دوں۔۔۔۔۔۔۔