محمد اظہر نذیر
محفلین
وقت کہانی
وقت کی بے شمار گلیاں ہیں
کچھ ہیں تاریک، اور کچھ روشن
وقت اک یاد ہے، کہانی ہے
وقت آیا، مجھے سُنانی ہے
سُکھ مرے پاس یہ اُگل بھی گیا
دُکھ کا انبار کچھ نگل بھی گیا
وقت آیا، ملا، نکل بھی گیا
وقت پھسلا کبھی سنبھل بھی گیا
میں نے اُمید وقت سے رکھی
وقت اچھا کبھی تو آئے گا
ایسا لکھے گا کاتب تقدیر
چین کی بانسُری بجائے گا
وقت نے کچھ چھپا لیا مجھ سے
اور کچھ آشکار کر بھی دیا
مجھ کو غفلت میں نیند میں لوٹا
پر کبھی ہوشیار کر بھی دیا
کاٹ لیتا ہے وقت جو بوئے
سنگ قسمت کے وقت بھی سوئے
کچھ کبھی بھی وہ پا نہیں سکتا
وقت جب پاس ہو ، اُسے کھوئے
سوچتا ہوں میں وقت کو جب بھی
ایک لمہے پہ آ کہ رُکتا ہے
وقت کا بہترین وہ لمہہ
وقت نے جب ملا دیا تُم سے