ایک مکالمہ: (علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ):: از محمد خلیل الرحمٰن

ایک مکالمہ
(علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ)
محمد خلیل الرحمٰن

اِک شخص کنوارا تھا، کہیں اُس کی ملاقات
اِک شادی شدہ سے جو ہوئی یوں سرِ بازار

اُس شخص کنوارے نے کہا شادی شدہ سے
گھر دار اگر تو ہے تو کیا میں نہیں گھر دار

بے چین اگر میں ہوں، نہیں چین سے تو بھی
برباد اگر میں ہوں، نہیں تو بھی گُہر بار

مجروح حمیّت جو ہوئی شادی شدہ کی
’’یوں کہنے لگا سُن کے یہ گُفتارِ دِ ل آزار

کچھ شک نہیں پرواز میں آزاد ہوں میں بھی
حد ہے مری پرواز کی لیکن سرِ دیوار

واقف نہیں تُو ہمّتِ شادی شد گاں سے
جیون تِرا تنہا، ہمیں بیوی سے سروکار

تُو رضیہ و انجم سے ملاقات میں آزاد
میں رضیہ و انجم کے خیالوں میں گرفتار​
 
ایک مکالمہ
علامہ اقبال

اک مرغ سرا نے یہ کہا مرغِ ہوا سے
پردار اگر تو ہے ،تو کیا میں نہیں پردار؟

گر تُو ہے ہوا گیر تو ہوں میں بھی ہواگیر
آزاد اگر تُو ہے، نہیں میں بھی گرفتار

پرواز خصوصیّتِ ہر صاحبِ پر ہے
کیوں رہتے ہیں مرغانِ ہوا مائلِ پندار

مجروح حمیّت جو ہوئی مرغِ ہوا کی
یوں کہنے لگا سُن کے یہ گُفتارِ دِل آزار

کچھ شک نہیں پروازمیں آزاد ہے تُو بھی
حد ہے تری پرواز کی لیکن سرِ دیوار

واقف نہیں تُو ہمّتِ مرغانِ ہوا سے
تُو خاک نشیمن ، انہیں گردوں سے سروکار

تو مرغ سرائیْ خورش از خاک بجوئی
مادر صددِ دانہ بانجم زدہ منقار

 

قیصرانی

لائبریرین

قیصرانی

لائبریرین

عثمان

محفلین

ظفری

لائبریرین
آپ رضیہ و انجم کو ہٹا کر روزی و اینجلی ڈال دیجیے۔ تسلی ہو جائے گی۔ :D
ارے بھائی ! میں نے ناموں پر نہیں ، تعداد پر نظرِ ثانی کی درخواست کی ہے ۔ آپ شاید" چند حسینوں کے خطوط اور چند تصویرِ بُتاں " بھول گئے ۔
بھلا دو چار ناموں سے دل کی تشفی ہوتی ہے ۔ ;)
 
بہت بہترین پیروڈی ہے جناب!
لیکن میں اپنے آپ کو کس کیٹگری میں شمار کروں؟o_O

ذوالقرنین بھائی ڈگری ڈگری ہوتی ہے ، اصلی ہو یا جعلی، اور شادی شادی ہوتی ہے ، چاہے ماشا ء اللہ آپ کی طرح ایک ماہ بھی نہ ہوا ہو، چاہے ہماری طرح پچیس سال ہوچکے ہوں۔ لہٰذا اب آپ اپنے آپ کو بھی ہم شادی زدوں میں شمار کیجیے۔ اب آپ بھی ہماری طرح رضیہ و انجم کے صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں :):):)

بھائی یہ ایک کائیناتی سچ ہے کہ ہر شادی شدہ اپنی بیوی سے ڈرتا ہے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے ایک شادی شدہ یوں بڑھکیں ہانک رہے تھے۔
’’ میری بیوی اکثر میرے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے‘‘

’’کیا واقعی؟‘‘ کسی نے متاثر کن لہجے میں انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا۔

’’ جی بالکل! وہ اکثر میرے سامنے گھٹنے ٹیک کر کہتی ہے’ سرتاج ! اب مسہری کے نیچے سے نکل آؤ۔ میں کچھ نہیں کہوں گی‘‘

اسی طرح ایک محفل میں بحث چھڑ ئی کہ کیا واقعی ہر شادی شدہ اپنی بیوی سے ڈرتا ہے۔ فورا رائے شماری کروانے کا اعلان ہوگیا۔

’’ جو حضرات اپنی بیوی سے ڈرتے ہیں وہ داہنی جانب اس پول کے ساتھ آجائیں اور جو بہادر حضرات اپنی بیوی سے نہیں ڈرتے وہ سامنے والی کھڑکی کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔‘‘

کچھ ہی دیر میں داہنی جانب پول کے ساتھ ایک جمع غفیر جمع ہوگیا اُدھر کھڑکی کے ساتھ بھی ایک حضرت کھڑے نظر آئے۔ انہیں دکیھ کر لوگوں نے ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسادئیے۔

’’ واہ صاحب ! مبارک ہو ۔ اس بھری محفل میں آپ وہ واحدشخصیت ہیں جو اپنی بیوی سے نہیں ڈرتے‘‘۔

’’ جی میں؟ مجھے تو میری بیوی نے حکم دیا ہے کہ میں یہاں کھڑا ہوجاؤں۔‘‘ وہ ڈرتے ڈرتے بولے۔

فرق صاف ظاہر ہے۔اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر شادی شدہ اپنی بیوی سے ڈرتا ہے۔ پس ثابت ہوگیا۔ کیو ۔ ای ۔ ڈی
 

ذوالقرنین

لائبریرین
ذوالقرنین بھائی ، ہمیں یاد آیا کہ آپ جیسوں کے لیے ( جس میں نئے شادی شداؤں سمیت ہم سب شادی شدہ شامل ہیں) تو ہم نے پہلے ہی ایک نظم لکھ رکھی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
بہت خوب انکل خلیل! :LOL:
ویسے ایک بات سمجھ میں نہیں آتا (یا کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا) کہ اتنے سارے عبرتناک مثال/یں سامنے ہونے، دیکھنے، سننے یا پڑھنے کے باوجود پھر بھی لوگ شادی کر ہی لیتے ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ :rolleyes:

(تدوین: جواب منظوم شکل میں چاہیے۔)
 
آخری تدوین:
Top