یہ میری نظروں سے اوجھل رہی!!!
دل اے نادان، کھلونے میں دلا دوں گا تُجھے
خواب بُنتا ہوں شب و روز، وہ لا دوں گا تُجھے
÷÷دل اے ناداں یا دلِ ناداں؟
دوسرا مصرع یوں رواں ہو گا
خواب بُنتا ہوں جو دن رات، وہ لا دوں گا تُجھے
جی بہت بہتر جناب
دل ۔ نادان، کھلونے میں دلا دوں گا تُجھے
خواب بُنتا ہوں جو دن رات، وہ لا دوں گا تُجھے
جاگ اُٹھتی ہے تُو ہر روز مصیبت کی طرح
خواہش وصل میں فرقت سے بُجھا دوں گا تُجھے
÷÷ مصیبت کا کیا محل؟ کچھ اور لفظ لاؤ۔
جی بہتر ہے، یوں دیکھ لیجئے
جاگ اُٹھتی ہے تُو ہر روز قیامت کیا ہے
خواہش وصل میں فرقت سے بُجھا دوں گا تُجھے
حسرت شوق، پڑا مہنگا ترا اُٹھ جانا
ایک تدبیر ہے تھپکوں گا سُلا دوں گا تُجھے
÷÷ پہلے مصرعے کی روانی کچھ بہتر ہو سکے تو بہت خوب،
اگر یوں کہا جائے تو؟
حسرت شوق، یہ مہنگا ہے ترا اُٹھ جانا
ایک تدبیر ہے تھپکوں گا سُلا دوں گا تُجھے
اک دھنویں سے تو زیادہ تری اوقات نہیں
غم نہیں تیرا مجھے غم، میں اُڑا دوں گا تُجھے
÷÷بہت خوب
میں ترے درد کا داماں تو نہیں بن سکتا
بس دعا ہے میرے قابو میں، دعا دوں گا تُجھے
÷÷درست، ویسے دوسرا مصرع یوں رواں ہو
اک دعا ہی مرے بس میں ہے، دعا دوں گا تکجھے
جی بہت بہتر ہے
میں ترے درد کا داماں تو نہیں بن سکتا
اک دعا ہی میرے بس میں ہے، دعا دوں گا تُجھے
ایک ناؤ پہ ترا نام لکھوں گا اظہر
اب بھُلانا ہی تو ہے، اور بہا دوں گا تُجھے
÷÷کشتی کہیں تو؟ ناؤ بطور فعلن مجھے پسند نہیں آتا (اسی طرح گھاؤ، گاؤ(ں)، پاؤ(ں )
دوسرا مصرع میں ’اور‘ کی جگہ کچھ اور ہو سکے تو بہتر ہے۔ جہسے
جب بھلانا ہی رہا تجھ کو، بہا دوں۔۔۔ ۔
یوں دیکھ لیجئے اُستاد محترم
ایک کشتی پہ ترا نام لکھوں گا اظہر
جب بھُلانا ہی ہو مقصود، بہا دوں گا تُجھے
گویا اب صورت کچھ یوں ہے
دل ۔ نادان، کھلونے میں دلا دوں گا تُجھے
خواب بُنتا ہوں جو دن رات، وہ لا دوں گا تُجھے
جاگ اُٹھتی ہے تُو ہر روز قیامت کیا ہے
خواہش وصل میں فرقت سے بُجھا دوں گا تُجھے
حسرت شوق، یہ مہنگا ہے ترا اُٹھ جانا
ایک تدبیر ہے تھپکوں گا سُلا دوں گا تُجھے
اک دھنویں سے تو زیادہ تری اوقات نہیں
غم نہیں تیرا مجھے غم، میں اُڑا دوں گا تُجھے
میں ترے درد کا داماں تو نہیں بن سکتا
اک دعا ہی میرے بس میں ہے، دعا دوں گا تُجھے
ایک کشتی پہ ترا نام لکھوں گا اظہر
جب بھُلانا ہی ہو مقصود، بہا دوں گا تُجھے