ایک نئی کاوش، '' نہیں رہ پاتی'' اصلاح کی درخواست کے ساتھ

بھوکے مرتوں کو نہ ہنسانہ کہیں پچھتاو
پیٹ خالی ہو، ظرافت ہی نہیں رہ پاتی

اپنے فاقوں سے شرافت کو بچا لیتے ہیں
آل بھوکی ہو، شرافت ہی نہیں رہ پاتی

جھوٹ سے پُر ہو عمل، شور تو ہو سکتا ہے
قول تو دور، خطابت ہی نہیں رہ پاتی

منہ نوالوں سے بھرا ہو، وہ بھی سب رشوت کے
رشوتیں کھا کے، شجاعت ہی نہیں رہ پاتی

سجدے جب ہوں گے دکھاوے کے لئے لوگوں کو
رب کو منظور، عبادت ہی نہیں رہ پاتی

چور جب لوٹ کے کر دے گا خزانے خالی
لیڈری دور، سیاست ہی نہیں رہ پاتی

کھوکھلا کرتے رہو گے جو یونہی کھا کھا کر
منزلیں چھوڑو، عمارت ہی نہیں رہ پاتی

ہاتھ دشمن کے جو کھیلو گے وطن کیا ہو گا
دور اندیشی، بصارت ہی نہیں رہ پاتی

مختلف عدل کے پیمانے رکھو گے اظہر
نا ہو انصاف، ریاست ہی نہیں رہ پاتی
 

الف عین

لائبریرین
اس کو غزل مسلسل بھی کہہ سکتے ہیں (اگر مطلع کا اضافہ کر دیا جائے تو) اور پابند نظم بھی۔ اس صورت میں کچھ عنوان دینا پڑے گا۔ اچھی کاوش ہے لیکن اظہر، تم کون سا فانٹ استعمال کرتے ہو، یہاں میرے پاس ٹائمز یا ایریل بن جاتا ہے، ڈفالٹ ہی رہنے دو تاکہ میری جمیل نستعلیق تھیم میں نستعلیق میں ہی نظر آئے۔
؎تفصیل سے بعد میں فی الحال صرف یہ مصرع
بھوکے مرتوں کو نہ ہنسانہ کہیں پچھتاو
یہ ہنسانہ کیا ہے، کیا ’ہنسانا‘ کی املا ہے۔ اس صورت میں یہ تلفظ بحر سے خارج ہے، اگر یوں ہے تو بہتر اور رواں صورت یوں ہو سکتی ہے
بھوکے مرتوں کو ہنساؤ نہ، کہ پچھتانا پڑے
 
بھوکے مرتوں کو ہنساؤ نہ، کہ پچھتانا پڑے
پیٹ خالی ہو، ظرافت ہی نہیں رہ پاتی

اپنے فاقوں سے شرافت کو بچا لیتے ہیں
آل بھوکی ہو، شرافت ہی نہیں رہ پاتی

جھوٹ سے پُر ہو عمل، شور تو ہو سکتا ہے
قول تو دور، خطابت ہی نہیں رہ پاتی

منہ نوالوں سے بھرا ہو، وہ بھی سب رشوت کے
رشوتیں کھا کے، شجاعت ہی نہیں رہ پاتی

سجدے جب ہوں گے دکھاوے کے لئے لوگوں کو
رب کو منظور، عبادت ہی نہیں رہ پاتی

چور جب لوٹ کے کر دے گا خزانے خالی
لیڈری دور، سیاست ہی نہیں رہ پاتی

کھوکھلا کرتے رہو گے جو یونہی کھا کھا کر
منزلیں چھوڑو، عمارت ہی نہیں رہ پاتی

ہاتھ دشمن کے جو کھیلو گے وطن کیا ہو گا
دور اندیشی، بصارت ہی نہیں رہ پاتی

مختلف عدل کے پیمانے رکھو گے اظہر
نا ہو انصاف، ریاست ہی نہیں رہ پاتی​
 

الف عین

لائبریرین
بھوکے مرتوں کو ہنساؤ نہ، کہ پچھتانا پڑے
پیٹ خالی ہو، ظرافت ہی نہیں رہ پاتی
۔۔۔۔ درست

اپنے فاقوں سے شرافت کو بچا لیتے ہیں
آل بھوکی ہو، شرافت ہی نہیں رہ پاتی
۔۔بات درست نہیں ہے، جب فاقے شرافت کو بچاتے ہیں، تو بھوکی اولاد میں شرافت کیوں نہیں رہ پاتی؟

جھوٹ سے پُر ہو عمل، شور تو ہو سکتا ہے
قول تو دور، خطابت ہی نہیں رہ پاتی
۔۔۔ اس میں عمل کا جھوٹ سے پر ہونا سمجھ میں نہیں آتا، اس کے علاوہ دوسرے مصرع سے ظاہر ہوتا ہے کہ قول بہتر درجے کی چیز ہے خطابت سے۔ یہ امر بھی غلط ہے۔

سجدے جب ہوں گے دکھاوے کے لئے لوگوں کو
رب کو منظور، عبادت ہی نہیں رہ پاتی
۔۔۔ لوگوں کو سجدے؟ جملے سے یہ مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے۔ یعنی لوگوں کا انجانے میں یا لا علمی میں شرک کے عمل کی طرف اشارہ ہے۔ جو شاید نہیں ہے، اس مصرع کو بدل ہی دو۔

چور جب لوٹ کے کر دے گا خزانے خالی
لیڈری دور، سیاست ہی نہیں رہ پاتی
۔۔۔ درست

کھوکھلا کرتے رہو گے جو یونہی کھا کھا کر
منزلیں چھوڑو، عمارت ہی نہیں رہ پاتی
منزلیں؟ اس سے کیا مراد ہے؟ شعر میری سمجھ میں تو نہیں آیا۔

ہاتھ دشمن کے جو کھیلو گے وطن کیا ہو گا
دور اندیشی، بصارت ہی نہیں رہ پاتی
۔۔ ہاتھ بجائے ’ہاتھوں میں‘ غلط ہے، پہلی نظر میں سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کے علاوہ اگر دشمنوں کے ہاتھوں میں کوئی کھیلے بھی اور وطن سے غداری کرے، تو اس کا تعلق بصارت اور دور اندیشی سے کیا ہے؟ یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔

مختلف عدل کے پیمانے رکھو گے اظہر
نا ہو انصاف، ریاست ہی نہیں رہ پاتی
۔۔۔ اس میں بھی ’ریاست‘ قافئے پر اعتراض ہو سکتا ہے، نا انصافی کا ریاست چلے جانے کا کیا تعلق؟
 
محترم اُستاد،
اپنے فاقوں سے شرافت کو بچا لیتے ہیں
آل بھوکی ہو، شرافت ہی نہیں رہ پاتی
۔۔بات درست نہیں ہے، جب فاقے شرافت کو بچاتے ہیں، تو بھوکی اولاد میں شرافت کیوں نہیں رہ پاتی؟

جناب یہاں مراد بھوکی اولاد کی شرافت کی نہیں بلکے کہنا یہ مقصود تھا کے انسان اپنی بھوک پیاس تو برداشت کر ہی لیتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اپنی شرافت بھی برقرار رکھ لیتا ہے، لیکن جب اولاد بھوکی ہو تو شرافت چھوڑ دیتا ہے، پھر بھی اگر آپ کو اعتراض ہوا تو تبدیل کر دیں گے

کھوکھلا کرتے رہو گے جو یونہی کھا کھا کر
منزلیں چھوڑو، عمارت ہی نہیں رہ پاتی
منزلیں؟ اس سے کیا مراد ہے؟ شعر میری سمجھ میں تو نہیں آیا۔

جناب منزل سے مراد یہاں اوپری چھت کی منازل ہیں، جامع فیروز الغات میں موجود معنٰی ہیں


مختلف عدل کے پیمانے رکھو گے اظہر
نا ہو انصاف، ریاست ہی نہیں رہ پاتی
۔۔۔ اس میں بھی ’ریاست‘ قافئے پر اعتراض ہو سکتا ہے، نا انصافی کا ریاست چلے جانے کا کیا تعلق؟

جناب ایک ریاست کی بنیاد یا اہم ترین ستون کہیے تو عدل ہے، انصاف ہے، جہاں انصاف ہی نہیں ہو گا تو ریاست کیسے قائم رہ سکتی ہے؟۔ پھر بھی آُ کا حکم ہوا تو تبدیل کر دیا جائے گا

باقی کچھ تبدیلیاں کیں ہیں ملاحظہ فرمائیے


بھوکے مرتوں کو ہنساؤ نہ، کہ پچھتانا پڑے
پیٹ خالی ہو، ظرافت ہی نہیں رہ پاتی

اپنے فاقوں سے شرافت کو بچا لیتے ہیں
آل بھوکی ہو، شرافت ہی نہیں رہ پاتی

قول متضاد اگر ہو گا عمل سے تو پھر
قول کا جوش، خطابت ہی نہیں رہ پاتی

منہ نوالوں سے بھرا ہو، وہ بھی سب رشوت کے
رشوتیں کھا کے، شجاعت ہی نہیں رہ پاتی

سجدے بے کیف اگر ہوں گے ، نمازیں خالی
رب کو منظور، عبادت ہی نہیں رہ پاتی

چور جب لوٹ کے کر دے گا خزانے خالی
لیڈری دور، سیاست ہی نہیں رہ پاتی

کھوکھلی کرتے رہو گے جو اگر بنیادیں
منزلیں چھوڑو، عمارت ہی نہیں رہ پاتی

دھندلا عکس نشے والی نظر کا ہو گا
دور اندیشی، بصارت ہی نہیں رہ پاتی

مختلف عدل کے پیمانے رکھو گے اظہر
نا ہو انصاف، ریاست ہی نہیں رہ پاتی

ولکم جزیل الشکر
اظہر
 
Top