حیدرآبادی
محفلین
حیدرآباد
ایک طلسماتی نام
شہرِ محبت
تہذیب و ثقافت کا آئینہ !
ساری دنیا میں ایک نام کے دو خوبصورت شہر ۔
ایک ہندوستان میں اور دوسرا پاکستان میں ۔
دونوں کی بنیادیں تاریخی ۔۔۔ دونوں کا ماضی عظیم الشان ۔۔۔ تہذیب و ثقافت پسند و انتخاب و نیز کئی امور میں یکسانیت و مماثلت ۔
چند لوگوں کے دیکھنے پر رشتہ داری نہ ہونے پر بھی اپنائیت محسوس ہوتی ہے ۔ کسی قسم کا رشتہ ناطہ نہ ہونے پر بھی دونوں جانب کے لوگوں میں مشابہت پائی جاتی ہے ۔
۔۔۔۔
پہلے میرے شہر کا تعارف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
نام :
حیدرآباد (دکن) ، ہندوستان
400 سالہ تاریخی عظیم الشان بھاگیہ نگر ، متحدہ ہندوستان کا درمیانی حصہ ، آندھرا پردیش کا دارالخلافہ ، کبھی ریاستِ نظام کا ایک حصہ تھا ۔
تاریخ :
دارالخلافہ گولکنڈہ کے قطب شاہی حکمراں نے اپنے دارالخلافہ شہر کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا ۔
اس کے لیے ابراہیم پٹنم تعمیر و آباد کیا گیا ۔ لیکن فروغ و ترقی نہیں ہوئی ۔ جس کے بعد قلی قطب شاہ نے موسیٰ ندی کے جنوب میں شہر کی بنیاد ڈالی ۔
نام کی وجہ تسمیہ :
1592ء میں شہر کو تعمیر کیا گیا ۔ قلی قطب شاہ نے اپنی معشوقہ ، شریکِ زندگی ، بھاگیہ متی کے نام سے شہر کو بھاگیہ نگر کے نام سے موسوم کیا ۔ اس معاملہ میں لوگ مختلف خیال ہیں ۔
نظم و نسق :
حیدرآباد شہر میں 1870ء میں ہی میونسپلٹی کی طرح نظم و نسق کا آغاز ہوا ۔ شہر پر حکمرانی کرنے والے آصف جاہی حکمرانوں نے کچھ علاقوں کو علحدہ کر کے چادرگھاٹ کو مخصوص میونسپالٹی کی مانند تشکیل دیا ۔
موجودہ مردم شماری :
تقریباََ ساٹھ (60) لاکھ
صنعتیں :
انفارمیشن ٹکنالوجی فراہم کرنے میں بی پی او مرکز کی طرح شہرت پا رہا ہے ۔ غیر ممالک سے آؤٹ سورسنگ صنعتیں آ رہی ہیں ۔ ٹکسٹائلز ، پلاسٹک ، شیشہ سازی وغیرہ کی صنعتیں معروف ہیں ۔ پرانے شہر کا زری کا کام قابلِ دید ہے ۔
سیاحتی مقامات :
قلعہ گولکنڈہ ، قطب شاہی مقبرہ ، چارمینار ، مکہ مسجد ، حسین ساگر ، نہرو زوالوجیکل پارک ، سالار جنگ میوزیم ، راموجی فلم سٹی ، برلا مندر اور چوڑیوں کا مشہور لاڑ بازار ۔
زبان :
اردو اور تلگو ۔
مرغوب غذا :
حیدرآبادی بریانی ، کھچڑی کھٹا ، بگھارے بینگن ، جنوبی ڈشیں ۔
بستیوں کے نام :
کوٹھی ، عابڈس ، خیریت آباد ، لکڑی کا پل ، چادر گھاٹ ، چھتری ناکہ ، مغل پورہ ، پنچ محلہ ، دبیر پورہ ، چنچل گوڑہ ، حمایت نگر ، حسینی علم وغیرہ ۔
جامعات (یونیورسٹیز) :
نظامِ ہفتم نواب میر عثمان علی خاں نے 1927ء میں جامعہ عثمانیہ ( عثمانیہ یونیورسٹی ) قائم کی ۔
ایک طلسماتی نام
شہرِ محبت
تہذیب و ثقافت کا آئینہ !
ساری دنیا میں ایک نام کے دو خوبصورت شہر ۔
ایک ہندوستان میں اور دوسرا پاکستان میں ۔
دونوں کی بنیادیں تاریخی ۔۔۔ دونوں کا ماضی عظیم الشان ۔۔۔ تہذیب و ثقافت پسند و انتخاب و نیز کئی امور میں یکسانیت و مماثلت ۔
چند لوگوں کے دیکھنے پر رشتہ داری نہ ہونے پر بھی اپنائیت محسوس ہوتی ہے ۔ کسی قسم کا رشتہ ناطہ نہ ہونے پر بھی دونوں جانب کے لوگوں میں مشابہت پائی جاتی ہے ۔
۔۔۔۔
پہلے میرے شہر کا تعارف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
نام :
حیدرآباد (دکن) ، ہندوستان
400 سالہ تاریخی عظیم الشان بھاگیہ نگر ، متحدہ ہندوستان کا درمیانی حصہ ، آندھرا پردیش کا دارالخلافہ ، کبھی ریاستِ نظام کا ایک حصہ تھا ۔
تاریخ :
دارالخلافہ گولکنڈہ کے قطب شاہی حکمراں نے اپنے دارالخلافہ شہر کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا ۔
اس کے لیے ابراہیم پٹنم تعمیر و آباد کیا گیا ۔ لیکن فروغ و ترقی نہیں ہوئی ۔ جس کے بعد قلی قطب شاہ نے موسیٰ ندی کے جنوب میں شہر کی بنیاد ڈالی ۔
نام کی وجہ تسمیہ :
1592ء میں شہر کو تعمیر کیا گیا ۔ قلی قطب شاہ نے اپنی معشوقہ ، شریکِ زندگی ، بھاگیہ متی کے نام سے شہر کو بھاگیہ نگر کے نام سے موسوم کیا ۔ اس معاملہ میں لوگ مختلف خیال ہیں ۔
نظم و نسق :
حیدرآباد شہر میں 1870ء میں ہی میونسپلٹی کی طرح نظم و نسق کا آغاز ہوا ۔ شہر پر حکمرانی کرنے والے آصف جاہی حکمرانوں نے کچھ علاقوں کو علحدہ کر کے چادرگھاٹ کو مخصوص میونسپالٹی کی مانند تشکیل دیا ۔
موجودہ مردم شماری :
تقریباََ ساٹھ (60) لاکھ
صنعتیں :
انفارمیشن ٹکنالوجی فراہم کرنے میں بی پی او مرکز کی طرح شہرت پا رہا ہے ۔ غیر ممالک سے آؤٹ سورسنگ صنعتیں آ رہی ہیں ۔ ٹکسٹائلز ، پلاسٹک ، شیشہ سازی وغیرہ کی صنعتیں معروف ہیں ۔ پرانے شہر کا زری کا کام قابلِ دید ہے ۔
سیاحتی مقامات :
قلعہ گولکنڈہ ، قطب شاہی مقبرہ ، چارمینار ، مکہ مسجد ، حسین ساگر ، نہرو زوالوجیکل پارک ، سالار جنگ میوزیم ، راموجی فلم سٹی ، برلا مندر اور چوڑیوں کا مشہور لاڑ بازار ۔
زبان :
اردو اور تلگو ۔
مرغوب غذا :
حیدرآبادی بریانی ، کھچڑی کھٹا ، بگھارے بینگن ، جنوبی ڈشیں ۔
بستیوں کے نام :
کوٹھی ، عابڈس ، خیریت آباد ، لکڑی کا پل ، چادر گھاٹ ، چھتری ناکہ ، مغل پورہ ، پنچ محلہ ، دبیر پورہ ، چنچل گوڑہ ، حمایت نگر ، حسینی علم وغیرہ ۔
جامعات (یونیورسٹیز) :
نظامِ ہفتم نواب میر عثمان علی خاں نے 1927ء میں جامعہ عثمانیہ ( عثمانیہ یونیورسٹی ) قائم کی ۔