انوار گوندل؎
محفلین
آج صبح میں تقریبن چار بجے اٹھا گاڑی سٹارٹ کی اور منہ ھاتھ دھونے چلا گیا
واپس آ کے بسمللہ شریف پڑ کے اپنے سفر پہ روانہ ہو گیا میں روزانہ تقریبن آٹھ سو کلو میٹر سفر کرتا ہوں تقریبن پچاس کلو میٹر آگے جا کر مجھے یاد آیا کہ مجے پانچ دن پہلےاک مخالفہ ہوا تھا جو بقول شرطہ ڈیڑسوروپے تھا میں نےسوچا کہ چیک کروںآ گیا ہے کہ نہیں پھر ادا بھی کرنا ہے۔
میں نے ۹۸۹ پہ کال کی آگے سے آواز آئی لہ اکامہ نمبر لکھ کر ایک دبائیں ..... آگے اس کمپیوٹر نے جوں ہی کہاکہ آپ کے پاس ہمارا چھ سو ریال ہے وہ جلدی اداکریں نہہیں تو بارہ سو دینا پڑےگا ۔یہ سنتے ہی آنکھو کےآگے اندیھرا سا چھا گیا دل کی دھڑکن رک گئی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے سینے میں چھرا گونپدیا ہو.... ایک پٹرول پمپ پہ رکا اور پانی پی کے دل کو تسلی دی لہ کوئی بات نہیں یہ سب ہوتا رہتا ہے پر واپس آیا اور منزل کی طرف چل پڑا دل میں یہ بات ہی تھی کے پندرہ سوروپے تنخواہ میں سے یہ ادا کر دوں گا اور باقی گھر بھیج دوں گا۔
آددھا سفر کر کے اک ہوٹل پہ رکا کہ کچھ کھا پی لوں جو ہونا تھا وہ تو ہھو گیا ہے۔ کھانا کھاتے وقت ایک میں یہہ سوچ رہا تھا ایک آدمی میرے پاس آیا اور بیٹھ گیا وہ کچھ دیر کے بعد بولا کہ میں روزانہ تمیں یہاں بہت خوش دیکھتا ہوں آج بڑے پریشان ہو کیا بات ہے میں نے کہا کچھ نہیں بھائی......
باتوں باتوں میں اپنے کفیل کو کستا رہا کہ وہ یوں ہے وہ یوں ہے۔وہ آدمی چپ چاپ سنتا رہا اور پھر
آدمی۔ویزا کتنےکا لیا؟
میں نے سب ڈیٹیل میں بتایا کہ پانچ لاکھ کا ویزا پنرہ گھنٹے ڈیوٹی اور تنخواہ،پندرہ سو روزانہ کے تیس ریال ٹرپ باقی کچھ بھی نہیں
آدمی کافی پرانہ اور سمجھدار محسوس ہو رہا تھا۔ وہ بولا کس سے لیا ہے؟
میں نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا اپںے ماموںسے۔اتنا کہ کے میں اس آدمی کی طرف دیکھنے لگا
آدمی بہت ہی اچھے انداز میں بولا کہ میری بات کا برا نہ ماننا اور غور سے سننا، میں نے جی میں جواب دیا اور سننے لگا
وہ بولا کہ کفیل کو مت کوسو ، کوسنا ہے تو اپنے ماموں کو کوسو تمہارے ساتھ ظلم تمہارے ماموں جاننے ہی کیا ہے اس طرح کے ویزے زیادہ طر فری میں دئے جاتے ہیں اور زیادہ بھی ہو تو پچاس ہزار روپے کا اور بھی کافی باتیں دلیلوں اورثبوتوں کے ساتھ کرتا رہا اب وہ اٹھا اورکہا کہ میں چلا لیکن میری باتوں پہ غورکرنا زندگی رہی تو پھر ملیں گے ۔ السلام علیکم!
میں نے وعلیکم سلام کہا، پھر اپنا کھانا ختم کر کے پریشان ذہن کے ساتھ چل پڑا سوچ رہا تھا کے پہلے مخالفے کی پریشانی کم تھی اوپر سے نیا بوجھ اسی سوچ میں پھر نکل پڑا۔ ذہن میں خیال آیا کہ کیونہ اس بات کی تھوڑی جانچ پڑتال کی جائے میں نےماموں کے اک قریبی دوست جو کہ میرا بھی رشتہ دار ہے اس کو فون کیا خیریت دریافت کر کے میں اپنے موضوع کی طرف آیا تو اس نے بات کو ٹال دیا اور کسی اورطرف موڑنے کی کوشش کی لیکن میں نے اپنی درد بھری کہانی شروع کر دی تومجبورہو کر اس نے کہا کہ میری بدنامی کیوں کرواتے ہو تومیں نےپھر ذد کی تو اسنے کہاکہ میرا نام بدنام مت کرنا بس تمہاری ساری باتوں کا دو لفظوں میں جواب دیتا ہوں۔
کہ اپنا منہ اور اپنے ہی چھتر.... تیرے ویزے کا ایک ریال بھی نیہں دیا تیرے ماموں جان نے..
اف میرے اللہ یہ بات سن کے میری جان نکل گئی محسوس ہوا کہ زندگی جیسے رک سی گئی ہو بڑا عجیب لگ رہا تھا یہ مامو کا رشتہ دل کر رہا ہے کہ اپنے آپ کو ہی مار ڈالو مگر زندگی اللہ تعالی دیتا ہے اور وہ ہی لے گا...
اپنے ہی ہوتے ہیں جو دلوں پہ وار کرتے ہیں
غیروں کو کیا خبر دل کس بات پہ دکھتا ہے
واپس آ کے بسمللہ شریف پڑ کے اپنے سفر پہ روانہ ہو گیا میں روزانہ تقریبن آٹھ سو کلو میٹر سفر کرتا ہوں تقریبن پچاس کلو میٹر آگے جا کر مجھے یاد آیا کہ مجے پانچ دن پہلےاک مخالفہ ہوا تھا جو بقول شرطہ ڈیڑسوروپے تھا میں نےسوچا کہ چیک کروںآ گیا ہے کہ نہیں پھر ادا بھی کرنا ہے۔
میں نے ۹۸۹ پہ کال کی آگے سے آواز آئی لہ اکامہ نمبر لکھ کر ایک دبائیں ..... آگے اس کمپیوٹر نے جوں ہی کہاکہ آپ کے پاس ہمارا چھ سو ریال ہے وہ جلدی اداکریں نہہیں تو بارہ سو دینا پڑےگا ۔یہ سنتے ہی آنکھو کےآگے اندیھرا سا چھا گیا دل کی دھڑکن رک گئی اور ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے سینے میں چھرا گونپدیا ہو.... ایک پٹرول پمپ پہ رکا اور پانی پی کے دل کو تسلی دی لہ کوئی بات نہیں یہ سب ہوتا رہتا ہے پر واپس آیا اور منزل کی طرف چل پڑا دل میں یہ بات ہی تھی کے پندرہ سوروپے تنخواہ میں سے یہ ادا کر دوں گا اور باقی گھر بھیج دوں گا۔
آددھا سفر کر کے اک ہوٹل پہ رکا کہ کچھ کھا پی لوں جو ہونا تھا وہ تو ہھو گیا ہے۔ کھانا کھاتے وقت ایک میں یہہ سوچ رہا تھا ایک آدمی میرے پاس آیا اور بیٹھ گیا وہ کچھ دیر کے بعد بولا کہ میں روزانہ تمیں یہاں بہت خوش دیکھتا ہوں آج بڑے پریشان ہو کیا بات ہے میں نے کہا کچھ نہیں بھائی......
باتوں باتوں میں اپنے کفیل کو کستا رہا کہ وہ یوں ہے وہ یوں ہے۔وہ آدمی چپ چاپ سنتا رہا اور پھر
آدمی۔ویزا کتنےکا لیا؟
میں نے سب ڈیٹیل میں بتایا کہ پانچ لاکھ کا ویزا پنرہ گھنٹے ڈیوٹی اور تنخواہ،پندرہ سو روزانہ کے تیس ریال ٹرپ باقی کچھ بھی نہیں
آدمی کافی پرانہ اور سمجھدار محسوس ہو رہا تھا۔ وہ بولا کس سے لیا ہے؟
میں نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا اپںے ماموںسے۔اتنا کہ کے میں اس آدمی کی طرف دیکھنے لگا
آدمی بہت ہی اچھے انداز میں بولا کہ میری بات کا برا نہ ماننا اور غور سے سننا، میں نے جی میں جواب دیا اور سننے لگا
وہ بولا کہ کفیل کو مت کوسو ، کوسنا ہے تو اپنے ماموں کو کوسو تمہارے ساتھ ظلم تمہارے ماموں جاننے ہی کیا ہے اس طرح کے ویزے زیادہ طر فری میں دئے جاتے ہیں اور زیادہ بھی ہو تو پچاس ہزار روپے کا اور بھی کافی باتیں دلیلوں اورثبوتوں کے ساتھ کرتا رہا اب وہ اٹھا اورکہا کہ میں چلا لیکن میری باتوں پہ غورکرنا زندگی رہی تو پھر ملیں گے ۔ السلام علیکم!
میں نے وعلیکم سلام کہا، پھر اپنا کھانا ختم کر کے پریشان ذہن کے ساتھ چل پڑا سوچ رہا تھا کے پہلے مخالفے کی پریشانی کم تھی اوپر سے نیا بوجھ اسی سوچ میں پھر نکل پڑا۔ ذہن میں خیال آیا کہ کیونہ اس بات کی تھوڑی جانچ پڑتال کی جائے میں نےماموں کے اک قریبی دوست جو کہ میرا بھی رشتہ دار ہے اس کو فون کیا خیریت دریافت کر کے میں اپنے موضوع کی طرف آیا تو اس نے بات کو ٹال دیا اور کسی اورطرف موڑنے کی کوشش کی لیکن میں نے اپنی درد بھری کہانی شروع کر دی تومجبورہو کر اس نے کہا کہ میری بدنامی کیوں کرواتے ہو تومیں نےپھر ذد کی تو اسنے کہاکہ میرا نام بدنام مت کرنا بس تمہاری ساری باتوں کا دو لفظوں میں جواب دیتا ہوں۔
کہ اپنا منہ اور اپنے ہی چھتر.... تیرے ویزے کا ایک ریال بھی نیہں دیا تیرے ماموں جان نے..
اف میرے اللہ یہ بات سن کے میری جان نکل گئی محسوس ہوا کہ زندگی جیسے رک سی گئی ہو بڑا عجیب لگ رہا تھا یہ مامو کا رشتہ دل کر رہا ہے کہ اپنے آپ کو ہی مار ڈالو مگر زندگی اللہ تعالی دیتا ہے اور وہ ہی لے گا...
اپنے ہی ہوتے ہیں جو دلوں پہ وار کرتے ہیں
غیروں کو کیا خبر دل کس بات پہ دکھتا ہے