مہدی نقوی حجاز
محفلین
سارنگ
سچ جو کہتا تو میں مارا جاتا
جھوٹ کہتا تو جلایا جاتا
بولنے پر مرے پابندی تھی
ورنہ اک بات تو کہتا جاتا
اے مرے شہر کی مظلوم سحر
تو مری قوم کا وجدان جگا
کوچہ عشق کے ہر کلبے میں
رات سوتے ہوئے انسان جگا
یہ کوئی وادی صحرا تو نہیں
کہ جھلستی ہو جہاں شوم نہار
جہاں اک خستہ شجر باقی ہو
مر چکی ہو جہاں امید بہار
عشق کہتا ہے پس پردہ کرب
کون بے جان دلوں میں ترسے
کون آرام سے ناتا توڑے
کون روتے ہوئے چہروں پہ ہنسے
دیکھ دنیا کے پریشان قدم
دیکھ بے زاری انسان کو دیکھ
دیکھ آزادی انسان حجاز
دیکھ پھر موت کے زندان کو دیکھ