ایک نظم، شکیل اختر کی والدہ کی بیاض سے

اربش علی

محفلین
نہ جانے پھر مِری جانِ حزیں رہے نہ رہے
یہ روح خانۂ تن میں مکیں رہے نہ رہے
یہ سر رہے نہ رہے، یہ جبیں رہے نہ رہے
ہے ختم سلسلۂ انتظار، آ جاؤ
تمھیں وفا کی قسم، ایک بار آ جاؤ!

براے نام بھی دل میں سُکوں کا نام نہیں
حیاتِ شوق کا پہلا سا وہ نظام نہیں
کہ صبح صبح نہیں، کوئی شام شام نہیں
نہیں ہے زیست کا کچھ اعتبار، آ جاؤ
تمھیں وفا کی قسم، ایک بار آ جاؤ!

میں اشکِ خون میں دامانِ دل بھگو بھی چکا
متاعِ صبر و سکون و قرار کھو بھی چکا
جو آہ! ہونا تھا انجامِ شوق، ہو بھی چکا
کہ میں ہوں اب ہمہ تن انتشار، آ جاؤ
تمھیں وفا کی قسم، ایک بار آ جاؤ!
 
Top