محمد اظہر نذیر
محفلین
عورت ہونا
سب سے مشکل سا لگا، جان کے، عورت ہونا
کچھ بھی پانے کو نہیں، ہے جو سبھی کچھ کھونا
اس کی چیخوں کو مگر کون سنے دنیا میں
ایک کونے میں پڑے گا اسے چھپ کر رونا
گھر کی بیٹی جو بنے لاڈ ملیں کم اس کو
خوشیاں لڑکوں کے لئے، اور ملیں غم اس کو
اور تو اور بُری ماں کو بھی لگتی جائے
لڑکے سب چین سے بیٹھے، تو نہیں دم اس کو
اب جو بیوی یہ بنے گی تو وہاں کیا ہو گا
چاکری سب کی کرے گی تو جہاں کیا ہو گا
پھر بھی شوہر سے پٹے گی، کئی باتیں سن کر
ساس بتلائے گی اس گھر میں کہاں کیا ہو گا
ماں کی صورت چلو سوچا تھا کے راحت ہو گی
ایک لائے گی بہو گھر میں تو فرصت ہو گی
وہ بہو لے کے کہیں بیٹا چلی جاتی ہے
اب جو فریاد کرے اُس سے توخففت ہو گی
یہ جو بندے ہیں اسے ذات دکھا دیتے ہیں
ورثہ تقسیم کریں، اس کو بھلا دیتے ہیں
ان کے ایوانوں میں جب بات کرو عورت کی
بات پکڑو جو کہیں ، بات گھما دیتے ہیں
زخم اندر ہو یا باہر یہ دکھا سکتی نہیں
عیب تو دور، کہیں جسم چھپا سکتی نہیں
کچھ ہیں باتیں جو اسے سہنا پڑا کرتی ہیں
غیر تو غیر، یہ شوہر کو بتا سکتی نہیں
مرد کرتا جو رہے اُس کو ملے آذادی
گھر سے نکلے ذرا عورت، تو ہے پھر بربادی
کوئی انصاف ملے گا اسے اس دنیا میں
کب کہاں جائے یہ اظہر جی کہو، فریادی