ایک نظم ،'' اب کیا کہئے''

اب کیا کہئے

محبت تو محبت ہے، نہیں پہلی، نہیں دوجی
محبت کی نہیں جاتی، مگر ہونی کو کیا ٹالیں
تمنا سے یا خواہش سے کبھی حاصل نہیں ہوتی
محبت کا قرینہ ہے، کبھی پوچھے نہیں آتی
جب آ جائے یہ مرضی سے تو پھر کوٹھے پہ چڑھ جائے
کرو پھر لاکھ کوشش بھی محبت رُک نہیں سکتی
اسے روکا اگر جائے، زہر یہ پھانک لیتی ہے
ہوا کے راستوں کی کوئی چابی بن نہیں پائی
کرو کچھ بھی مگر اظہر محبت جھانک لیتی ہے
محبت ہو اگر بار دگر تو اس کو کیا کہئے؟​
 
کچھ تبدیلیاں



اب کیا کہئے

محبت تو محبت ہے، نہیں پہلی، نہیں دوجی
محبت کی نہیں جاتی، مگر ہونی کو کیا ٹالیں
تمنا سے یا خواہش سے کبھی حاصل نہیں ہوتی
محبت کا قرینہ ہے، کبھی پوچھے نہیں آتی
جب آ جائے یہ مرضی سے تو پھر کوٹھے پہ چڑھ جائے
کرو پھر لاکھ کوشش بھی محبت رُک نہیں سکتی
اسے روکو اگر تو زہر جھٹ سے پھانک لیتی ہے
ہوا کے راستوں پر کوئی پہرہ کیا لگائے گا
کرو کچھ بھی مگر اظہر محبت جھانک لیتی ہے
محبت ہو اگر بار دگر تو اس کو کیا کہئے؟​
 

الف عین

لائبریرین
میں پہلے ’زہر‘ کے درست تلفظ کا لکھنے والا تھا کہ نیچے اظہر کی تبدیل شدہ نظم نظر آئی جس میں زہر درست بندھا ہے۔نجھے لفظ ’دوجی‘ سند نہیں آیا، یہ بھی بای ووڈ کی، بلکہ ’ایک دوجے کے لئے‘ کی یاد دلاتا ہے۔
اس میں غزل کی طرح مقطع لانے کی ضرورت؟
 
میں پہلے ’زہر‘ کے درست تلفظ کا لکھنے والا تھا کہ نیچے اظہر کی تبدیل شدہ نظم نظر آئی جس میں زہر درست بندھا ہے۔نجھے لفظ ’دوجی‘ سند نہیں آیا، یہ بھی بای ووڈ کی، بلکہ ’ایک دوجے کے لئے‘ کی یاد دلاتا ہے۔
اس میں غزل کی طرح مقطع لانے کی ضرورت؟
جی بس ایسے ہی مقطع نُما باندھ دیا کہ اپنی بعض کاوشیں لوگوں کے نام سے شائع ہوتے دکھائی پڑیں
 
Top