ایک نظم برائے اصلاح'' آذادی '' از محمد اظہر نزیر

آذادی



عجب سا ماجرہ ہے یہ، عجب اک شہر سے گذرا
انوکھی ریت سی دیکھی، خدا کے قہر سے گذرا

عجب سے لوگ دیکھے ہیں، عجب سے روگ دیکھے ہیں
عجب سی دشمنی دیکھی، عجب سنجوگ دیکھے ہیں

جفا کو پوجتے دیکھا، وفا کو کوستے دیکھا
حیا کو ڈوبتے دیکھا، ریا کو پھولتے دیکھا

یہ سب کچھ جانتے تھے لوگ، یہ سب کچھ مانتے تھے لوگ
مگر چوروں لٹیروں کو، سخی گردانتے تھے لوگ

وطن کھپے وطن کھپے، یہی جو رٹ لگاتے تھے
وطن کی نیم پر ضربیں، کدالیں جھٹ لگاتے تھے

وہاں پر موت ذندہ تھی، حیا ڈر ڈر کے پھرتی تھی
فقر سے جو بھی بچ جاتا، لئے مر مر کے پھرتی تھی

وہاں مسجد پناہ میں تھی، نہ مندر چرچ آتا تھا
محافظ کی حفاظت پر، کروڑوں خرچ آتا تھا

مدارس درس دیتے تھے، کہ کب کس کس کو کٹنا ہے
بڑے ہیں کام کے فرقے، کہاں کس کس کو بٹنا ہے

وہاں پر آدمیت تھی، کہ باذاروں میں بکتی تھی
کسی کے منہہ نہ پڑ جائے، وہاں ہر کھِیل پھکتی تھی

سڑک پر لاش بے گورو کفن، سڑ سڑ کے رہتی تھی
مجھے کس جرم میں مارا، سبھی چلتوں سے کہتی تھی

برا ہو وقت کا کہ ہر کسی کے پاس ہی نہ تھا
ہمیں بھی لوٹ کر جانا ہے، یہ احساس ہی نہ تھا

بھلا ہو موت کا، اب سکھ سے ہوں گے وہ جہاں ہوں گے
مگر جو رہ گئے پیچھے، وہ زندوں میں کہاں ہوں گے

نکل کر قید سے غیروں کی وہ اپنوں نے باندھے تھے
جھکائی گردنیں اُنکی، جھکائے اُنکے کاندھے تھے

مجھے کوئی تو بتلائو، کہ آذادی کہاں پائی
وہاں کی قید بہتر تھی، یا اب یہ قیدِ تنہائی​
 

الف عین

لائبریرین
اظہر، تمہاری ایک خامی ہے غیر ضروری الفاظ کا استعمال۔ بطاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا کہ یہی لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے۔ ذرا سوچ کر الفاظ استعمال کیا کرو۔ اب یہاں۔
عجب سا ماجرہ ہے یہ، عجب اک شہر سے گذرا
انوکھی ریت سی دیکھی، خدا کے قہر سے گذرا
عجب سے لوگ دیکھے ہیں، عجب سے روگ دیکھے ہیں
عجب سی دشمنی دیکھی، عجب سنجوگ دیکھے ہیں

یہاں عجب ماجرا کیا ہے؟ آپ شہر سے گزرے ہی کیوں؟
انوکھی ریت اور خدا کے قہر میں تعلق؟
دشمنی اور سنجوگ میں کیا تعلق، شاید سنجوگ کے معنی دوستی سمجھ رہے ہو، اس ہندی لفظ کا مطلب اتفاق ہے۔

یہ سب کچھ جانتے تھے لوگ، یہ سب کچھ مانتے تھے لوگ
مگر چوروں لٹیروں کو، سخی گردانتے تھے لوگ
مفاعیلن مفاعیلن میں آخری رکن تو مفاعیلان ہو سکتا ہے، درمیانی نہیں، یہاں پہلے مصرع میں ’یہ‘ نکال دو تو بحر میں آتا ہے
یہ سب کچھ جانتے تھے لوگ، سب کچھ مانتے تھے لوگ
تقطیع۔۔۔ یِ سب کچ جا۔۔۔ نتے تھے لو۔ گ سب کچ ما۔۔۔ نتے تھے لوگ
یعنی پہلے مصرع کے پہلے ٹکڑے میں گاف زائد ہے، جسے دوسرے مصرع میں ملایا جا سکتا ہے۔ اس کے آخر میں ’لو‘ کی جگہ ’لوگ‘ مکمل آ سکتا ہے۔

وطن کھپے وطن کھپے، یہی جو رٹ لگاتے تھے
وطن کی نیم پر ضربیں، کدالیں جھٹ لگاتے تھے

وہاں پر موت ذندہ تھی، حیا ڈر ڈر کے پھرتی تھی
فقر سے جو بھی بچ جاتا، لئے مر مر کے پھرتی تھی
وہاں پر آدمیت تھی، کہ باذاروں میں بکتی تھی
کسی کے منہہ نہ پڑ جائے، وہاں ہر کھِیل پھکتی تھی
نکل کر قید سے غیروں کی وہ اپنوں نے باندھے تھے
جھکائی گردنیں اُنکی، جھکائے اُنکے کاندھے تھے
اوپر کے اشعار شاید پنجابی محاورے کی وجہ سے میری سمجھ میں نہیں آ سکے

برا ہو وقت کا کہ ہر کسی کے پاس ہی نہ تھا
ہمیں بھی لوٹ کر جانا ہے، یہ احساس ہی نہ تھا
اس میں ’کہ‘ اور ’نہ‘ دو حرفی فع کے طور پر باندھے گئے ہیں، وارث اس کو درست سمجھتے ہیں، مجھے اعتراض ہوتا ہے!!
ویسے ’نہ‘ کی جگہ ’کب‘ لایا جائے تو معنی آفرینی بڑھ جاتی ہے۔

مجھے کوئی تو بتلاؤ، کہ آزادی کہاں پائی
وہاں کی قید بہتر تھی، یا اب یہ قیدِ تنہائی
’یا اب‘ محلِ نظر ہے، اس کی جگہ ’کہ اب‘ کیا جا سکتا ہے۔
 
آذادی



عجب اک شہر سے گذرا، عجب دیکھی ہے آزادی
پڑا ہوں سوچ میں تب سے، کہ کیا ہوتی ہے بربادی

زمیں لاشوں نے ڈھک دی تھی، سما پر یاس تھا طاری
سبھی بے حس سے لگتے تھے، گناہ کا بوجھ تھا بھاری

جفا کو پوجتے دیکھا، وفا کو کوستے دیکھا
حیا کو ڈوبتے دیکھا، ریا کو پھولتے دیکھا

عجب تھا جشن آزادی کہ اپنا ہوش ہی نہ تھا
نہیں تھیں رونقیں باقی، کہیں وہ جوش ہی نہ تھا

وطن کھپے وطن کھپے، یہی جو رٹ لگاتے تھے
وطن کی نیم پر ضربیں، کدالیں جھٹ لگاتے تھے

وہاں پر موت ذندہ تھی، حیا ڈر ڈر کے پھرتی تھی
فقر سے جو بھی بچ جاتا، لئے مر مر کے پھرتی تھی

وہاں مسجد پناہ میں تھی، نہ مندر چرچ آتا تھا
محافظ کی حفاظت پر، کروڑوں خرچ آتا تھا

مدارس درس دیتے تھے، کہ کب کس کس کو کٹنا ہے
بڑے ہیں کام کے فرقے، کہاں کس کس کو بٹنا ہے

وہاں پر آدمیت تھی، کہ باذاروں میں بکتی تھی
کسی کے منہہ نہ پڑ جائے، وہاں ہر کھِیل پھکتی تھی

سڑک پر لاش بے گورو کفن، سڑ سڑ کے رہتی تھی
مجھے کس جرم میں مارا، سبھی چلتوں سے کہتی تھی

برا ہو وقت کا کہ ہر کسی کے پاس ہی کب تھا
ہمیں بھی لوٹ کر جانا ہے، یہ احساس ہی نہ تھا

بھلا ہو موت کا، اب سکھ سے ہوں گے وہ جہاں ہوں گے
مگر جو رہ گئے پیچھے، وہ زندوں میں کہاں ہوں گے

نکل کر قید سے غیروں کی وہ اپنوں نے باندھے تھے
جھکائی گردنیں اُنکی، جھکائے اُنکے کاندھے تھے

مجھے کوئی تو بتلائو، کہ آذادی کہاں پائی
وہاں کی قید بہتر تھی، کہ اب یہ قیدِ تنہائی​
 

الف عین

لائبریرین
دو ایک تبدیلیوں کے علاوہ میرے اعتراضات ابھی بھی قائم ہیں، مع میری نا فہمی کے کئی مصرعوں کے۔
 
آذادی



عجب سا وقت ہے یا رب، عجب سی دی ہے آزادی
پڑا ہوں سوچ میں تب سے، کہ کیا ہوتی ہے بربادی

زمیں لاشوں نے ڈھک دی ہے، سما پر یاس ہے طاری
سبھی بے حس سے لگتے ہیں، گناہ کا بوجھ ہے بھاری

کوئئی طالب مٹاتا ہے، کوئئی پانی بہاتا ہے
کسی انسان کی مٹی ہوا کا رخ اُڑاتا ہے

عجب ہے جشن آزادی کہ اپنا ہوش ہی کب ہے
نہیں ہیں رونقیں باقی، ارے وہ جوش ہی کب ہے

وطن میرا وطن میرا، یہی بس رٹ لگاتے ہیں
وطن کی آن پر ضربیں، ملے موقع لگاتے ہیں

یہاں پر موت ذندہ ہے، حیا مر مر کے پھرتی ہے
فقر سے جو بھی بچ جائے، لئے ڈر ڈر کے پھرتی ہے

ہیہاں مسجد پناہ میں ہے نہ مندر چرچ آتا ہے
محافظ کی حفاظت پر، کروڑوں خرچ آتا ہے

مدارس درس دیتے ہیں، کہ کب کس کس کو کٹنا ہے
بڑے ہیں کام کے فرقے، کہاں کس کس کو بٹنا ہے

یہاں پر آدمیت ہے، کہ باذاروں میں بکتی ہے
کسی کے منہہ نہ پڑ جائے، یہاں ہر کھِیل پھکتی ہے

سڑک پر لاش بے گورو کفن، سڑ سڑ کے رہتی ہے
مجھے کس جرم میں مارا، سبھی چلتوں سے کہتی ہے

برا ہو وقت کا کہ ہر کسی کے پاس ہی کب ہے
ہمیں بھی لوٹ کر جانا ہے، یہ احساس ہی کب ہے

بھلا ہو موت کا، اب سکھ سے ہوں گے وہ جہاں ہوں گے
مگر جو رہ گئے پیچھے، وہ زندوں میں کہاں ہوں گے

نکل کر قید سے غیروں کی وہ اپنوں نے باندھے تھے
جھکائی گردنیں اُنکی، جھکائے اُنکے کاندھے تھے

مجھے کوئی تو بتلائو، کہ آذادی کہاں پائی
وہاں کی قید بہتر تھی، کہ اب یہ قیدِ تنہائی​

اب دیکھیے تو جناب
دعا گو
اظہر
 
Top