ایک نظم برائے اصلاح'' سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں'' از محمد اظہر نزیر

آستادِ محترم،
شائد آپ اسے اچھا نہ سمجھیں کہ اوپر تلے کچھ نہ کچھ الٹا سیدھا لکھتا رہتا ہوں اور آپ کے قیمتی وقت کا بڑا حصہ اُسے سنوارنے میں ظائع ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک تمنا تھی کہ کوئی نظم لکھوں اور وہ بھی جو پابند ہو۔ ایک کوشش کر رکھی تھی سو خود کو روک نہیں پا رہا۔
میری خواہش کی شدت کو معاف فرما کر رہنمائی کیجیے
دعا گو
اظہر


سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں
سرد موسم ہلا کے جاتا ہے
گرم موسم جلا کے جاتا ہے
سب خزائیں گذر نہیں پاتیں
اور بہاریں اثر نہیں پاتیں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں
میں کبھی ناخدا سے لٹتا ہوں
اور کبھی پارسا سے لٹتا ہوں
جمہوری رہنما سے لٹتا ہوں
جیش کے سورما سے لٹتا ہوں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں
میں لتاڑا گیا ہوں اپنوں سے
میں اکھاڑا گیا ہوں سپنوں سے
میں پچھاڑا گیا ہوں میتوں سے
اور اُجاڑا گیا ہوں پیتوں سے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں
استقامت الہٰ نہیں ملتی
استراحت خدا نہیں ملتی
دور گلیوں کی بات کیا کرنی
میرے گھر میں پناہ نہیں ملتی
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں
کوئی طالب بنا لٹیرا ہے
کتنا روشن لگے اندھیرہ ہے
جان لے آج تو اگر سمجھے
کتنا تاریک یہ سویرا ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں​
 
اُستاد٫ محترم
کچھ تبدیلیاں اپنے ظور پہ کی ہیں فرست میں ملاحظہ کیجیے گا
دعا گو
اظہر

سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

اب خزاؤں میں پھول ملتے ہیں
گرمیاں ٹھنڈ میں گزرتی ہیں
اور بہاروں میں خاک اڑتی ہے
سردیاں آگ سی پگھلتی ہیں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

میں کہ ہر ناخدا سے لٹتا ہوں
اور سبھی پارسا سے لٹتا ہوں
اپنے ہی رہنما سے لٹتا ہوں
فوج کے سورما سے لٹتا ہوں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

موت کا رقص ہے جو جاری ہے
سختیاں زیست کی، بیماری ہے
مجحکو یہ تک پتہ نہیں چلتا
زندگی کیسے؟ کب گزاری ہے؟
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

استقامت الہٰ نہیں ملتی
استراحت خدا نہیں ملتی
دور گلیوں کی بات کیا کرنی
میرے گھر میں پناہ نہیں ملتی
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

کوئی طالب بنا لٹیرا ہے
کتنا روشن لگے اندھیرہ ہے
جان لے آج تو اگر سمجھے
کتنا تاریک یہ سویرا ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ابھی ابھی راست یہاں اصلاح کا پیغام لکھا تھا لیکن کمپیوٹر ونڈوز اپ ڈیٹ کر کے ری سٹارٹ ہو گیا!! اب دوبارہ ورڈ داکیومینٹ بنا کر کاپی پیسٹ کر رہا ہوں۔
اب خزاؤں میں پھول ملتے ہیں
گرمیاں ٹھنڈ میں گزرتی ہیں
اور بہاروں میں خاک اڑتی ہے
سردیاں آگ سی پگھلتی ہیں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

//// اس میں صرف دوسرے اور چوتھے مصرع میں قوافی ہیں!! پابند نظم میں ایک طرح کا نظام ضروری ہے، زیادہ تر پہلا دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہیں، یہی نظام رکھو پوری نظم میں تو پابند نظم کہی جا سکے گی۔ دوسرے ہی بند میں چاروں قافیہ بند مصارع ہیں۔
اس کے علاوہ ‘گزرتی‘ اور ’پگھلتی‘ قوافی غلط ہیں، ان میں ایطا ہے۔ آسان الفاظ میں۔۔ گزرتی اور پگھلتی میں ’تی‘ مشترک ہے، اس کو نکال دیں تو ’گزر‘ اور ’پگھل‘ قوافی نہیں ہو سکتے۔

میں کہ ہر ناخدا سے لٹتا ہوں
اور سبھی پارسا سے لٹتا ہوں
اپنے ہی رہنما سے لٹتا ہوں
فوج کے سورما سے لٹتا ہوں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

//// یہ لٹنے کا عمل کیوں" رہنما کے علاوہ تو کوئی لٹیرا نہیں ہوتا!!
اگر مان بھی لیں، تب بھی ’پارسا‘ یہاں غلط ہے، پارساؤں یعنی جمع کا محل ہے۔ یا یوں کہو۔
اور ہر پارسا سے لٹتا ہوں

موت کا رقص ہے جو جاری ہے
سختیاں زیست کی، بیماری ہے
مجحکو یہ تک پتہ نہیں چلتا
زندگی کیسے؟ کب گزاری ہے؟
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

/// دوسرا مصرع پسند نہیں آیا، ’یہاں بھی جمع ’بیماریاں‘ کا محل ہے، یا پھر سختیاں کی جگہ کسی واحد لفظ کی ضرورت۔

استقامت الہٰ نہیں ملتی
استراحت خدا نہیں ملتی
دور گلیوں کی بات کیا کرنی
میرے گھر میں پناہ نہیں ملتی
/// الۃہ، خدا، اور پناہ قوافی غلط ہیں۔ اس کے علسوہ
دور گلیوں کی بات کیا کرنی
کی جگہ
دور گلیوں کی بات کیا کیجے
بہتر ہوگا۔

کوئی طالب بنا لٹیرا ہے
کتنا روشن لگے اندھیرہ ہے
جان لے آج تو اگر سمجھے
کتنا تاریک یہ سویرا ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

/// کتنا روشن لگے اندھیرہ ہے
جان لے آج تو اگر سمجھے
دونوں مصرعوں میں الفاظ کی ترتیب بدلنے کی ضرورت ہے۔ روانی نہیں ہے موجودہ نشست میں۔
 
ابھی ابھی راست یہاں اصلاح کا پیغام لکھا تھا لیکن کمپیوٹر ونڈوز اپ ڈیٹ کر کے ری سٹارٹ ہو گیا!! اب دوبارہ ورڈ داکیومینٹ بنا کر کاپی پیسٹ کر رہا ہوں۔
اب خزاؤں میں پھول ملتے ہیں
گرمیاں ٹھنڈ میں گزرتی ہیں
اور بہاروں میں خاک اڑتی ہے
سردیاں آگ سی پگھلتی ہیں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

//// اس میں صرف دوسرے اور چوتھے مصرع میں قوافی ہیں!! پابند نظم میں ایک طرح کا نظام ضروری ہے، زیادہ تر پہلا دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہیں، یہی نظام رکھو پوری نظم میں تو پابند نظم کہی جا سکے گی۔ دوسرے ہی بند میں چاروں قافیہ بند مصارع ہیں۔
اس کے علاوہ ‘گزرتی‘ اور ’پگھلتی‘ قوافی غلط ہیں، ان میں ایطا ہے۔ آسان الفاظ میں۔۔ گزرتی اور پگھلتی میں ’تی‘ مشترک ہے، اس کو نکال دیں تو ’گزر‘ اور ’پگھل‘ قوافی نہیں ہو سکتے۔

میں کہ ہر ناخدا سے لٹتا ہوں
اور سبھی پارسا سے لٹتا ہوں
اپنے ہی رہنما سے لٹتا ہوں
فوج کے سورما سے لٹتا ہوں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

//// یہ لٹنے کا عمل کیوں" رہنما کے علاوہ تو کوئی لٹیرا نہیں ہوتا!!
اگر مان بھی لیں، تب بھی ’پارسا‘ یہاں غلط ہے، پارساؤں یعنی جمع کا محل ہے۔ یا یوں کہو۔
اور ہر پارسا سے لٹتا ہوں

موت کا رقص ہے جو جاری ہے
سختیاں زیست کی، بیماری ہے
مجحکو یہ تک پتہ نہیں چلتا
زندگی کیسے؟ کب گزاری ہے؟
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

/// دوسرا مصرع پسند نہیں آیا، ’یہاں بھی جمع ’بیماریاں‘ کا محل ہے، یا پھر سختیاں کی جگہ کسی واحد لفظ کی ضرورت۔

استقامت الہٰ نہیں ملتی
استراحت خدا نہیں ملتی
دور گلیوں کی بات کیا کرنی
میرے گھر میں پناہ نہیں ملتی
/// الۃہ، خدا، اور پناہ قوافی غلط ہیں۔ اس کے علسوہ
دور گلیوں کی بات کیا کرنی
کی جگہ
دور گلیوں کی بات کیا کیجے
بہتر ہوگا۔

کوئی طالب بنا لٹیرا ہے
کتنا روشن لگے اندھیرہ ہے
جان لے آج تو اگر سمجھے
کتنا تاریک یہ سویرا ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

/// کتنا روشن لگے اندھیرہ ہے
جان لے آج تو اگر سمجھے
دونوں مصرعوں میں الفاظ کی ترتیب بدلنے کی ضرورت ہے۔ روانی نہیں ہے موجودہ نشست میں۔


آداب و تسلیمات اُستاد محترم،
کچھ تبدیلیاں کیں ہیں ملاحظہ کیجیے

سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

اب خزاؤں میں پھول ملتے ہیں
اور بہاروں میں خار کھلتے ہیں
گرمیاں ٹھنڈ میں گذرتی ہیں
سردیوں میں شباب جلتے ہیں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

میں کہ ہر ناخدا سے لٹتا ہوں
اور ہر پارسا سے لٹتا ہوں
اپنے ہی رہنما سے لٹتا ہوں
فوج کے سورما سے لٹتا ہوں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

موت کا رقص ہے جو جاری ہے
زندگی بوجھ ہے جو بھاری ہے
مجحکو یہ تک پتہ نہیں چلتا
میں نے کیسے کہاں گذاری ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

استقامت خدا نہیں ملتی
استراحت ذرا نہیں ملتی
تھنڈی سانسوں کی بات کیا کیجیے
صاف ہو جو ہوا نہیں ملتی
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

کوئی طالب بنا لٹیرا ہے
سب کو روشن لگے اندھیرہ ہے
نہ برا جاننا مجھے لوگو
کتنا تاریک یہ سویرا ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں​


دعا گو
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
اغلاط کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔

سردیوں میں شباب جلتے ہیں
قافیہ غلط ہے، دوسرے قوافی میں کسر (زیر) ہے، ملتے، کھلتے

اپنے ہی رہنما سے لٹتا ہوں
اس کو بدل دیں،

مجحکو یہ تک پتہ نہیں چلتا
میں نے کیسے کہاں گذاری ہے
کیسے کیا گزاری ہے؟ اس کا کوئی ہنٹ تو دو!

استقامت خدا نہیں ملتی
استراحت ذرا نہیں ملتی

یہ دووں مصرعے درست نہیں، استقامت تو آپ کی اپنی کوشش ہوتی ہے،
تھنڈی سانسوں کی بات کیا کیجیے
میں بھی ایک مسئلہ ہے، اس کا تعلق
صاف ہو جو ہوا نہیں ملتی
سے کیا ہے؟

کوئی طالب بنا لٹیرا ہے
سے کیا مراد ہے؟
اور

نہ برا جاننا مجھے لوگو
کتنا تاریک یہ سویرا ہے
برا جاننے سے تاریک سویرے کا تعلق؟
 
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

اب خزاؤں میں پھول ملتے ہیں
اور بہاروں میں خار کھلتے ہیں
گرمیاں ٹھنڈ میں گذرتی ہیں
سردیوں میں بدن پگھلتے ہیں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

میں کہ ہر ناخدا سے لٹتا ہوں
اور ہر پارسا سے لٹتا ہوں
کیسی تقدیر ہے ملی مجھ کو
فوج کے سورما سے لٹتا ہوں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

موت کا رقص ہے جو جاری ہے
زندگی بوجھ ہے جو بھاری ہے
مجھکو یہ تک پتہ نہیں چلتا
بازی کیسے کہاں پہ ہاری ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

آدمیت یہاں سسکتی ہے
اکثریت کہ اب بلکتی ہے
وحشتیں راستوں پہ قابض ہیں
بربریت کھلی چہکتی ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

ہر محافظ بنا لٹیرا ہے
سب کو روشن لگے اندھیرہ ہے
اک دیا ہو جلا سکوں اظہر
کتنا تاریک یہ سویرا ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں​

اُمید ہے محترم اُستاد جی کہ اب کچھ قابل قبول ہو گی
خیر اندیش
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
اب کافی بہتر ہے اظہر۔
لیکن ’پگھلتے‘ میں بھی وہی قباحت ہے جو ’جلنے‘ میں تھی۔ کھِلتے، مِلنے کے ساتھ ’ہلتے‘ ‘سِلتے‘ قوافی تو ممکن ہیں۔ جَلتے، پگھَلتے نہیں۔
کیسی تقدیر ہے ملی مجھ کو
اب بھی رواں نہیں
اس کو یوں کہو تو۔۔۔
کیا تماشا ہے، اپنی سرحد پر

اس کے علاوہ
اک دیا ہو جلا سکوں اظہر
بھی اس طرحض بہتر ہے
اک دیا ہی جلا سکوں اظہر
 
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

اب خزاؤں میں پھول ملتے ہیں
اور بہاروں میں خار کھلتے ہیں
گرمیاں ٹھنڈ میں گذرتی ہیں
سردیوں میں بدن پگھلتے ہیں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

میں کہ ہر ناخدا سے لٹتا ہوں
اور ہر پارسا سے لٹتا ہوں
کیا تماشا ہے اپنی سرحد میں
فوج کے سورما سے لٹتا ہوں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

موت کا رقص ہے جو جاری ہے
زندگی بوجھ ہے جو بھاری ہے
مجھکو یہ تک پتہ نہیں چلتا
بازی کیسے کہاں پہ ہاری ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

آدمیت یہاں سسکتی ہے
اکثریت کہ اب بلکتی ہے
وحشتیں راستوں پہ قابض ہیں
بربریت کھلی چہکتی ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

ہر محافظ بنا لٹیرا ہے
سب کو روشن لگے اندھیرہ ہے
اک دیا ہی جلا سکوں اظہر
کتنا تاریک یہ سویرا ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں​

محترم اُستاد، پہلے بند کے بارے میں کچھ آپ ہی تجویز کیجیے
 

الف عین

لائبریرین
مجھ سے ایک ٹائپو ہو گیا تھا کہ ’پر‘ کی جگہ ’ہر‘ لکھ دیا تھا، لیکن ’سرحد میں‘ کی جگہ ’سرحد پر ‘ ہی درست محاورہ ہے۔
پگھلتے کا مترادف میری بھی سمجھ میں نہیں آ رہا۔
بہر حال قابل قبول تو کہی جا سکتی ہے نظم۔
 

سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

اب خزاؤں میں پھول ملتے ہیں
اور بہاروں میں خار کھلتے ہیں
گرمیاں ٹھنڈ میں گذرتی ہیں
سردیوں میں بدن پگھلتے ہیں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

میں کہ ہر ناخدا سے لٹتا ہوں
اور ہر پارسا سے لٹتا ہوں
کیا تماشا ہے اپنی سرحد پر
فوج کے سورما سے لٹتا ہوں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

موت کا رقص کب سے جاری ہے
خوش ہے اور مست اس پہ ناری ہے
مجھکو یہ تک پتہ نہیں چلتا
بازی کیسے کہاں پہ ہاری ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

آدمیت یہاں سسکتی ہے
اکثریت سدا بلکتی ہے
وحشتیں راستوں پہ قابض ہیں
جاہلیت کھلی چہکتی ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

ہر محافظ بنا لٹیرا ہے
سب کو روشن لگے اندھیرہ ہے
اک دیا ہی جلا سکوں اظہر
کتنا تاریک یہ سویرا ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں​
 
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

اب خزاؤں میں پھول ملتے ہیں
اور بہاروں میں خار کھلتے ہیں
گرمیاں ٹھنڈ میں گذرتی ہیں
سردیوں میں بدن پگھلتے ہیں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

میں کہ ہر ناخدا سے لٹتا ہوں
اور ہر پارسا سے لٹتا ہوں
کیا تماشا ہے اپنی سرحد میں
فوج کے سورما سے لٹتا ہوں
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

موت کا رقص کب سے جاری ہے
خوش ہے اور مست اس پہ ناری ہے
مجھکو یہ تک پتہ نہیں چلتا
بازی کیسے کہاں پہ ہاری ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

آدمیت یہاں سسکتی ہے
اکثریت سدا بلکتی ہے
وحشتیں راستوں پہ قابض ہیں
جاہلیت کھلی چہکتی ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں

ہر محافظ بنا لٹیرا ہے
سب کو روشن لگے اندھیرا ہے
اک دیا ہی جلا سکوں اظہر
کتنا تاریک یہ سویرا ہے
سارے موسم ہی میرے جھوٹے ہیں​

جی محترم میں درست کیے دیتا ہوں
نیک تمناؤں کے ساتھ
اظہر
 
Top