ایک نظم برائے اصلاح'' پتی پھول کی '' از محمد اظہر نزیر
معذرت خواہ ہوں، پتہ نہیں مجھے دخل در معقولات کا حق ہے بھی کہ نہیں۔ آ ہی گیا ہوں تو کچھ عرض بھی کرتا چلوں۔
معذرت مزید، آپ کو یاد ہو گا، میں نے پہلے بھی ”نزیر“ کے ہجے درست یعنی ”نذیر“ لکھنے کی درخواست کی تھی۔ آپ سے شاید پھر فروگزاشت ہو گئی۔ گزاشت سے یاد آیا، فیس بک پر ایک بحث میں سب سنار اپنی اپنی مارتے رہے، پر اختتام محمد وارث صاحب نے ایک لوہار کی سے کیا تھا۔ بارے پھر انہی سے راہنمائی کا طلبگار ہوں کہ حافظہ کچھ پیچھے رہ رہا ہے۔ ذال، زے پر وہ بحث میں نے محفوظ بھی کی تھی مگر یہاں وہ والی ہارڈ ڈِسک اس وقت منسلک نہیں ہے۔
پتی پھول کی
نظم کی ہئیت جو بھی ہو، اُس میں موضوع کے حوالے سے ایک منطقی تسلسل ہونا چاہئے۔ ایک نظم میں ایک ہی موضوع ہو تو یہ تقاضا بڑھ جاتا ہے، جب کہ کثیرالموضوعاتی نظم میں شاعر کو کچھ سہولتِ اختیار مل جاتی ہے۔ یہ نظم یک موضوعی ہے، سو آپ کو یہاں وہ سہولت نہیں مل سکتی۔
پھر تو دیکھا نہ گیا، پھول بکھرتا مجھ سے
یہاں فنی گرفت بہت کمزور ہے۔ یہ نظم کا ابتدائیہ ہے مگر اس کا اسلوب اختتامیہ کا سا ہے۔ آئندہ مصرعوں کو ذہن میں رکھیں تو وہ پھول تو کب کا بکھر چکا، یہاں ”بکھرتا“ کا محل نہیں بنتا۔
خوف پتی کےدُکھے قلب، اُترتا مجھ سے
آپ غالباً یہ کہنا چاہ رہے ہیں <کہ پھول کی پتی کا درد مجھے اپنے دل میں اترتا محسوس ہوا؟> شعر، مصرعے میں الفاظ کی نشست و برخاست کو بدل دیتے ہیں اور کچھ حذف اور حک سے بھی کام لیا جاتا ہے کہ نثر کو مطلوبہ وزن میں ڈھالا جا سکے۔ تاہم یہ تبدل، حذف اور حک ایسا نہ ہو کہ الفاظ اپنا مفہوم کھو دیں یا غیرمقصود مفہوم در آئے۔ مصرع کو ”لفظ مچولی“ بنانا مقصود نہیں ہوتا، مقصودِ اصلی تو ابلاغ ہے۔ الفاظ کو مقصود کے ماتحت رہنا چاہئے۔
جب سے پُر خار سی دیکھی ہے گزرگاہ میں نے
اس مصرع میں لفظ ”سی“ لگتا ہے پاسنگ کے طور پر لایا گیا ہے۔ ورنہ گزرگاہ کا پرخار ہونا کافی ہے، پرخار سی ہونا کیا ہوا؟ عروضی صحت کے لئے یہاں آپ ”گزرگہ“ لائیں، اس میں کوئی تفاوت نہیں، نہ لفظی نہ معنوی۔ بلکہ اس سے عروضی اِشکال ختم ہو جائے گا
درد گلشن کا، خزاؤں سے گذرتا مجھ سے
یہاں ردیف ”مجھ سے“ معاناً قطعی ناموزوں ہے۔ آپ کے ہاں مجھے کم سے کم لفظ استعمال کرنے کا رجحان نظر آتا ہے۔ جو یقیناً مستحسن ہے اگر ایہام یا ابہام پیدا نہ ہو، یا بات نامکمل نہ رہ جائے۔ یہی اختصارِ الفاظ اگر موعودہ مفہوم کے ابلاغ سے قاصر ہو تو اس سے گریز لازم ہے۔
وہ بھی نازک تھی کسی پھول کی پتی جیسی
پر درندوں نے جلا ڈالی حزینہ کیسی
یہاں تلازموں اور علامات میں عدم تعلق ہے۔ نازک، پھول، پتی، جلا ڈالا ۔۔۔ درندہ کی بجائے یہاں آگ، خزاں، لُو مناسب تلازمہ ہوتا۔ درندہ کے ساتھ دریدن، دانت گاڑنا، جبڑے اور اس کے ساتھ رعایتِ لفظی کے طور پر جبر لایا جا سکتا تھا، ایسی صورت میں پھول پتی کی بجائے، غزال وغیرہ موزوں ہوتا۔
وہ ستی کرتے تھے ناری کو پتی کے ہمراہ
ہم نے مسکین جلا ڈالی پتی بن ویسی
ستی کرنا، بات سمجھ میں آتی ہے اور ودھوا ہوئے بنا ستی کیا جانا بہت اعلٰی مضمون بنتا مگر الفاظ نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔ اس سے پہلے دونوں مصرعوں کے ساتھ لسانی اور تلازماتی رابطہ کمزور رہ گیا۔ لفظ مسکین اس پورے ماحول میں اجنبی لگ رہا ہے، یہاں ”بے چاری“ بہتر تاثر دے سکتا تھا۔
خوف سے کانپتی وہ رات کو گھر آئی تھی
اک درندے کی ہوسناکی کو ٹھکرآئی تھی
دوسرا مصرع غرابتِ لفظی کا شکار ہو گیا ہے۔ ترکیب ”ہوسناکی“ تو چلئے کسی حد تک قابلِ قبول ہے مگر یہ ”ٹھکرآئی“ تو دو الفاظ کو مدغم کر کے کوئی ایسا لفظ بنانے کی کوشش دکھائی دیتی ہے جسے انگریزی لسانیات میں ایکرونیم کہا جاتا ہے۔
لا کے تیزاب جلا ڈالا اُسے قاتل نے
جگ میں عریاں کہ وہ بد ذات کو کر آئی تھی
یہاں شدید ابہام ہے، قاتل کون ہے؟ جس کو وہ ٹھکرا آئی تھی یا جو گھر میں اس کا رکھوالا سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے مصرعے میں ”کہ“ غالباً ”کیونکہ“ کے معانی میں آیا ہے، اگر ایسا ہے تو اس کا مقام غلط ہے اسے یا تو مصرع کے شروع میں لاتے یا حذف کر دیتے۔ مسئلہ یہاں بھی وہی لگتا ہے کہ واقعہ کو اتنے تھوڑے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی کہ ابہام پیدا ہو گیا۔ عریاں کون بد ذات ہوا؟ وہ اور قاتل کیا وہی ہے تو پھر ”کر آئی تھی“ کا کیا جواز ہے؟ نظم میں گنجائش ہوتی ہے کہ آپ جہاں ایسی تنگی محسوس کریں ایک دو چار مصرعے ڈال کر اس کو فراخ کر لیں۔
قرض پے کھیل جوا رات گئے گھر آیا
وہ شرافت کو نفاست کو پرے دھر آیا
قرض پہ، نہ کہ قرض پے، یہ تو لسانی مسئلہ ہوا۔ کھیل جوا یعنی جوا کھیل کر؟ تو پھر اس کو کھیلا جوا لکھیں کہ تقاضا بھی یہی ہے۔ ”پرے دھر آیا“ قافیے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بیان کو کمزور کر دیا آپ نے یہاں۔
ایک لحظہ بھی نہ سوچا کہ وہ پنچایت میں
اپنی ہی جان کو بیٹی کو ونی کر آیا
کیا جوا کھیلنے والوں کی ٹیم کو پنچایت کا نام دیا جا سکتا ہے؟ یا یہ ہے کہ وہ جوے میں بیٹی ہار آیا، بات پنچایت میں گئی اور پنچایت نے اسے ونی کرنے پر مجبور کر دیا؟ دوسرے مصرعے میں ”جان“ سے زیادہ غیرت کا معاملہ ہے، لفظ ”آن“ کے بارے میں سوچئے گا۔ اس پورے سیاق و سباق میں ایک لحظہ بھی نہ سوچا کی بجائے اگر قطعاً نہ سوچا کا مفہوم ہو تو بات بہتر طور پر بیان ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
تیرا سب گھر جو چلاتی تھی وہی ناری ہے
کیسا یہ دن ہے کہ اس ذات پہ اب بھاری ہے
ناری کا لفظ معناً تو کسی بھی عورت کے لئے ہو سکتا ہے، تاہم اس نظم کے پیش منظر میں، اور خاص طور پر اس بند میں ناری کا مفہوم جورو نکلتا ہے، اوپر بیٹی کا ذکر ہے۔ یہ بات قاری کو الجھا دیتی ہے۔ گھر چلاتی تھی، اور وہی ناری ہے، جب اس کو تیل چھڑک کر جلا دیا تو یہ ہے بھی تھی میں بدل جانی چاہئے۔ اس پر بھی توجہ دیجئے گا۔
کس گنہ کی تو سزا دے گا اسے‘ بول ذرا
بدچلن خود ہے تو پھر ٹھہری وہ کیوں کاری ہے
تو گویا ابھی اس ناری کو سزا ملنی ہے؟ اور سزا وہ دے گا؟ یہ نظم واقعاتی طور پر عدم موافقت کا شکار ہو گئی ہے۔ ”بول ذرا“ میں جو چیلنج درکار تھا وہ نہیں آ پایا۔ یہاں یا تو اس تخاطب میں قوت پیدا کریں یا کوئی دوسرا تخاطب لے آئیں، مثلاً اے ظالم، او بدذات، اے بد بخت وغیرہ۔
مجموعی طور پر یہ نظم کہنے کی ایک کوشش ہے۔ بارِ دگر کوشش کیجئے، ایک اچھی نظم بن سکتی ہے۔ یہاں ایک موٹی سی بات عرض کر دوں کہ شعر محض ہم وزن سطروں کا نام نہیں، اس میں احساس، اظہار، فن، ابلاغ اور دیگر عناصر بہت اہم ہیں۔ اردو محفل پر میرا ایک مضمون چل رہا ہے ”شاعری کیا ہے“۔ کسی وقت اسے ایک نظر دیکھ لیجئے گا۔
معذرت خواہ ہوں مگر جو کچھ عرض کیا ہے، ضروری سمجھ کر عرض کیا ہے۔ کڑوی دوائی سمجھ لیجے گا۔
مکرمی جناب یعقوب صاحب،
سب سے پہلے آپ کو اوراصحاب محفل کو دلی عید مبارک، کل عام و انتم طیبین کل کم باذن اللہ سبحانہھ و تعالٰی
میرا اس فورم پہ آنا کچھ سیکھنے کے لئیے ہی تھا اور علم کہیں سے بھی ملے حاصل کرنا میرا حق، سو یہاں دخل در معقولات کیسے، یہ خالصتاً علمی اور تعلیمی مسئلہ ہے، اھلاًً و سہلاً مرحبا جناب۔
انشااللہ آئندہ محمد اظہر نذیر ہی لکھنے کی کوشش ہو گی، غلطی معاف
مجھے اگر اجاذت دیں تو عرض کروں کہ اردو زبان سے میری واقفیت صرف ستہی سی ہے اور ابھی تک عبور کی منزل '' ہنوذ دلی دور است'' کے مصداق ہی ناپی جا سکتی ہے
آپ نے جس فصاحت اور بلاغت سے اصلاحات کی طرف توجہ دلائی ہے اُن کے لئے بے حد شکر گذار ہوں، بس طلبگار ہوں وقت کا کی انہیں تھوڑا سمجھ لوں تاکہ اُن کی روشنی میں اصلاح کر سکوں
اجازت ہو تو گذارش کروں کے موضوعاتی لحاظ سے نظم یک موضوع ہی ہے، مگر چونکہ کثیر جہتی تھی چناچہ کچھ آسانیاں خود کے لئے اختیار کر لی تھیں، مگر اب جب آپ وہ آسانیاں نہیں دینا چاہتے تو کچھ کرنا ہی پڑے گا
جہاں تک ابتدائیے کا تعلق ہے تو آپ جانتے ہی ہیں کے اسلوب گفتگو کے کئی ڈھنگ ہوتے ہیں، کچھ لوگ میری طرح اختتامیہ کو ابتدائیہ بنا کے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں، جس کا مقصد شروع ہی سے قاری کی توجہ حاصل کر لینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ بلکل صحیح فرمایا آپ نے
خوف پتی کےدُکھے قلب، اُترتا مجھ سے
یہاں اُس دکھ کا ذکر ہے جو ٹوٹنے سے پہلے پھول کی پتی کے دل مِیں پیدا ہوتا اور اترتا شاعر محسوس کرتا ہے، شاعر کا اپنا دکھ نہیں
آپ نے بلکل صحیح ارشاد فرمایا کے مجھے کم از کم الفاظ میں مدعا بیان کرنے کی عادت ہے، اور مِن بزعم خود without compromising the quality of the text so that it can be understood easily اردو میں معاف کیجیے گا پتہ نہیں کیسے کہیں گے اسے۔ خیر کہنا یہ تھا کے اپنے طور پہ تو جملہ میں کم از کم ابہام رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ لازمی خیال قاری پر اعتبار کرتے ہوئے مصرع لکھنے کی کوشش کرتا ہوں
خیر آپ نے جو فرمایا ہے انشااللہ اُس کی روشنی میں کوشش کروں گا، کچھ وقت دیجیے از راہ کرم
خیر اندیش
اظہر