ایک نظم برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
زندگی میں پہلی بار کوئی نظم لکھنے کی کوشش کی ہے مجھے نظم لکھنے کے قائدے قوانین بالکل بھی پتہ نہیں، کیا اس میں بھی قافیے ردیف کی کوئی قید ہوتی ہے؟


میں تجھ کو بھول جاوں گا یہ امرِ غیر ممکن ہے
یہ میرا دل تری یادوں کے سائے میں دھڑکتا ہے
تو میرے دل میں رہتا ہے
مری سانسوں میں بستا ہے
یہ بس دعوی نہیں میرا
حقیقت ہے، یہی سچ ہے
یہی سچ ہے حقیقت ہے میں بس یونہی نہیں کہتا
اک ایسا وقت گزرا ہے تری یادیں مجھے جب چین سے جینے نہیں دیتی تھی اک پل بھی
رلاتی تھیں ڈراتی تھیں جلاتی تھیں ستاتی تھیں
تڑپتا تھا مچلتا تھا میں اس دم ٹوٹ جاتا تھا
اور آخر میں بکھر جاتا
ہاں تو میں کہ رہا تھا اس گھڑی میں نے تری یادیں بھلانے کی مٹانے کی بہت ہی کوششیں کی ہیں
مگر میری ہر کی کوشش بے مطلب بے معنی تھی
وہ سب ناکامراں ٹھہریں
یہ اعتراف کرتا ہوں
میں چاہ کر بھی یادوں کو تری دل سے بھلا سکتا نہیں ہرگز
مری وجہِ بقا! سو اس لیے میں تجھ سے کہتا ہوں
میں تجھ کو بھول جاوں گا یہ امرِ غیر ممکن ہے
یہ بس دعوی نہیں میرا
حقیقت ہے یہی سچ ہے.
 

الف عین

لائبریرین
امر غیر ممکن‘ کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ یہ تو آزاد نظم ہے، کیا محض ’نا ممکن‘ نہیں چل سکتا!
کچھ غیر ضروری سے مصرعے لگ رہے ہیں۔ دو ایک مصرع بحر سے خارج ہو گئے ہیں۔

میں تجھ کو بھول جاوں گا یہ امرِ غیر (نا ممکن) ہے
یہ میرا دل تری یادوں کے سائے میں دھڑکتا ہے۔
(مرا دل تری یادوں کے سائے میں دھڑکتا ہے۔)
تو میرے دل میں رہتا ہے
مری سانسوں میں بستا ہے
یہ بس دعوی نہیں میرا
حقیقت ہے، یہی سچ ہے
یہی سچ ہے حقیقت ہے میں بس یونہی نہیں کہتا
اک ایسا وقت گزرا ہے تری یادیں مجھے جب چین سے جینے نہیں دیتی تھیں اک پل بھی
رلاتی تھیں ڈراتی تھیں جلاتی تھیں ستاتی تھیں
تڑپتا تھا مچلتا تھا
میں اس دم ٹوٹ جاتا تھا
اور آخر میں بکھر جاتا
ہاں تو میں کہ رہا تھا اس گھڑی میں نے تری یادیں بھلانے کی مٹانے کی بہت ہی (سی)کوششیں کی ہیں
مگر میری ہر کی کوشش بے مطلب بے معنی تھی (خارج از بحر)
وہ سب ناکامراں ٹھہریں (مگر سب کوششیں نا کامراں ٹھہریں)
یہ اعتراف کرتا ہوں (خارج از بحر)
میں چاہ کر بھی یادوں کو تری دل سے بھلا سکتا نہیں ہرگز (خارج از بحر)
مری وجہِ بقا! سو اس لیے میں تجھ سے کہتا ہوں
میں تجھ کو بھول جاوں گا یہ امرِ غیر ممکن (نا ممکن) ہے
یہ بس دعوی نہیں میرا
حقیقت ہے یہی سچ ہے.

خط کشیدہ الفاظ نکال دو۔ بریکٹ والے قبول کر لو۔
’اور آخر میں بکھر ‘ سے ’ناکامراں ٹھہریں‘ تک بھی نکال دو، ان کی جگہ بریکٹ والا مصرع کر دو،
 

محمد فائق

محفلین
بہت بہت شکریہ سر
کیا میں نے نظم درست لکھی ہے (آپ کی اصلاح کے مطابق)

میں تجھ کو بھول جاوں گا یہ نا ممکن ہے
مرا دل تری یادوں کے سائے میں دھڑکتا ہے
تو میرے دل میں رہتا ہے
مری سانسوں میں بستا ہے
یہ بس دعوی نہیں میرا
یہی سچ ہے میں بس یونہی نہیں کہتا
اک ایسا وقت گزرا ہے تری یادیں مجھے جب چین سے جینے نہیں دیتی تھی اک پل بھی
رلاتی تھیں ڈراتی تھیں
میں اس دم ٹوٹ جاتا تھا
اس گھڑی میں نے تری یادیں بھلانے کی بہت سی کوششیں کی ہیں
مگر سب کوششیں ناکامراں ٹھہریں
مری وجہِ بقا! سو اس لیے میں تجھ سے کہتا ہوں
میں تجھ کو بھول جاوں گا یہ ناممکن ہے
یہ بس دعوی نہیں میرا
یہی سچ ہے
 

محمد فائق

محفلین
UOTE="محمد فائق, post: 1972835, member: 14259"]بہت بہت شکریہ سر
کیا میں نے نظم درست لکھی ہے (آپ کی اصلاح کے مطابق)

میں تجھ کو بھول جاوں گا یہ نا ممکن ہے
مرا دل تری یادوں کے سائے میں دھڑکتا ہے
تو میرے دل میں رہتا ہے
مری سانسوں میں بستا ہے
یہ بس دعوی نہیں میرا
یہی سچ ہے میں بس یونہی نہیں کہتا
اک ایسا وقت گزرا ہے تری یادیں مجھے جب چین سے جینے نہیں دیتی تھی اک پل بھی
رلاتی تھیں ڈراتی تھیں
میں اس دم ٹوٹ جاتا تھا
اس گھڑی میں نے تری یادیں بھلانے کی بہت سی کوششیں کی ہیں
مگر سب کوششیں ناکامراں ٹھہریں
مری وجہِ بقا! سو اس لیے میں تجھ سے کہتا ہوں
میں تجھ کو بھول جاوں گا یہ ناممکن ہے
یہ بس دعوی نہیں میرا
یہی سچ ہے[/QUOTE]

الف عین سر
کیا یہ نظم میں نے آپ کی اصلاح کے مطابق درست لکھی ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
ایک تائپو کر دی ہے اس بار۔
اور ایک میری غلطی تھی
ٹائپو
نہیں دیتی تھی اک پل بھی
درست
نہیں دیتی تھیں اک پل بھی

میری غلطی
مرا دل تری یادوں کے سائے میں دھڑکتا ہے
شاید میں نے اسے یوں سمجھا تھا۔
مرا دل تری ہی یادوں کے سائے میں دھڑکتا ہے
لیکن یہاں ’تری‘ نہیں۔ مکمل ’تیری‘ کا محل ہے۔’ہی‘ کا اضافہ کرنا ہو گا
 
Top