ایک نظم برائے اصلاح

سید فصیح احمد

لائبریرین
"داستاں"

چاندنی سا روپ تھا
با خدا کیا روپ تھا
ہر ادا تھی دل نشیں
ہر قدم تھی نازکی
دلرُبا سی مورتی
اصل تھی یا خواب تھی
اس سے تو آگاہ نہیں
میں تو بس مسحور تھا
زندگی تھی اک خوشی
دل میں اس کا پیار تھا
ہر طرف تھی روشنی
جب تلک وہ ساتھ تھی
راز تھے سب آگہی
سب جہاں پر نور تھا

سردیوں کی رت میں جب
کھلکھلاتی کھیلتی
زندگی بھی ساتھ ہی
اس کے ہم دم جھومتی
مے کدے کے جام سی
نا تھی وہ یوں عام سی
کاش میں سب لکھ سکوں
کیا عجب سا حسن تھا
کیا عجب سا حسن تھا

گرمیوں کی رت میں بھی
دلکشی ہر آن تھی
جب کڑکتی دھوپ میں
ہوتیں کرنیں متصل
ہوتا اس پہ یہ گماں
کہ جیسے ہو اک کوئی
دیوی کندن کی بنی
شمس کی رانی یا پھر
اپسرا ہو دھوپ کی
زندگی کا لعل تھی
تھی مجھے یوں قیمتی
تھی مجھے یوں قیمتی

پھول رت کا ذکر کیا
اس کے ہی سب پھول تھے
اس سے ہی سب بات تھی
وہ سراپا رنگ تھی
اس سے سج دھج مانگ کر
اڑتی پھرتیں شان سے
ہر طرف کو تتلیاں
پھولوں کا جو حُسن تھا
اس کی ہی تو دین تھی
میں بھی تو مستی بھرا
اس کے اتنے پاس تھا
جیسے بھنورا و یاسمیں
جیسے بھنورا و یاسمیں

پھر وہ رت بھی آ گئی
رنگ سب کے مر گئے
شکلیں تھیں سب زرد سی
ہر طرف تھی پیاس ہی
ہونٹ پپڑی جم گئی
تھی غضب کی وہ خزاں
یاد ہے اب بھی مجھے
ہر طرف اک خوف تھا
ایسی بھگدڑ سی مچی
مجھ سے پیلے رنگ میں
کھو گئی وہ تازگی
میرے سینے میں کھلا
اک کنول مرجھا گیا
اک کنول مرجھا گیا

لکھ رہا ہوں جو ہوا
چاند کے میں رو برو
چودھویں شب سوچتا
وہ چھنکتی چاندنی
میں سراپا یاس ہوں
میں سراپا یاس ہوں

لے گیا وہ ساتھ ہی
سب کا سب اذنِ خوشی
میں کروں کیسے بیاں
اس کی بھولی سادگی
سردیوں کی دھوپ تھا
چلبلا سا روپ تھا
زندگی تھی خاص سی
جب تلک موجود تھا
جب تلک موجود تھا
چاندنی سا روپ تھا
 
آخری تدوین:
Top