محمد اظہر نذیر
محفلین
بال
وہی موسم ہے، بارش ہے، مگر چاہت نہیں باقی
وہی ہیٹر لگا کمرہ، مگر راحت نہیں باقی
الجھ بیٹھے تھے ہم دونو، ذرا سی بات کو لے کر
لڑائی ہو گئی تھی سرد پھیلی رات کو لے کر
مری منطق مطابق، رات سردی کی نہیں اچھی
ترا کہنا، سہانی سرد راتیں ہیں کہیں اچھی
وہی میں سوچتا ہوں بال ڈالا، بات چھوٹی نے
الگ کرنے کو شائد جال ڈالا، بات چھوٹی نے
برابر بال کے جو فرق آنکھوں میں سمایا ہے
کئی قربانیاں لے کر بھی اس نے آزمایا ہے
یہی تھا بال سا جس نے محبت تار کر دی تھی
دسمبر کا مہینہ تھا، ہماری ہار کر دی تھی
ہمارے درمیاں جو بال ہے کیا وہ مٹائے گی
دسمبر لوٹ بھی آیا، محبت لوٹ پائے گی
وہی موسم ہے، بارش ہے، مگر چاہت نہیں باقی
وہی ہیٹر لگا کمرہ، مگر راحت نہیں باقی
الجھ بیٹھے تھے ہم دونو، ذرا سی بات کو لے کر
لڑائی ہو گئی تھی سرد پھیلی رات کو لے کر
مری منطق مطابق، رات سردی کی نہیں اچھی
ترا کہنا، سہانی سرد راتیں ہیں کہیں اچھی
وہی میں سوچتا ہوں بال ڈالا، بات چھوٹی نے
الگ کرنے کو شائد جال ڈالا، بات چھوٹی نے
برابر بال کے جو فرق آنکھوں میں سمایا ہے
کئی قربانیاں لے کر بھی اس نے آزمایا ہے
یہی تھا بال سا جس نے محبت تار کر دی تھی
دسمبر کا مہینہ تھا، ہماری ہار کر دی تھی
ہمارے درمیاں جو بال ہے کیا وہ مٹائے گی
دسمبر لوٹ بھی آیا، محبت لوٹ پائے گی