ایک نوجوان لڑکی کا پہلا لو لیٹر

arifkarim

معطل
گلی کے کتے بلی تو اخلاق نہیں سیکھ سکتے لیکن انسان اخلاق نہیں سیکھے گا تو ان کے جیسی حیوانی حرکتیں کرے گا۔
نکاح سے قبل ایک دوسرے کو جاننے کے لیے ڈیٹ مارنے کی سنتوں کی کم از کم ایک مثال پیش کریں۔
پالتو جانوروں کی اگر بچپن ہی سے ٹریننگ کر وائی جائے تو وہ نہ صرف اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ایسے مشکل موقعوں پر جب انسان ساتھ جوڑ جائیں تو جانور آپکا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے۔
جہاں تک ڈیٹنگ کا سوال ہے تو وہ عرب معاشرے میں تھی نہ ہے اور نہ کبھی ہوگی۔ البتہ مرد و عورت کا شادی سے قبل ایک دوسرے کو کسی تیسرے کی مدد سے جاننے کا رواج تھا۔ اسلام کی آمد کے بعد وہ بھی ختم ہو گیا۔
 

سید عمران

محفلین
پالتو جانوروں کی اگر بچپن ہی سے ٹریننگ کر وائی جائے تو وہ نہ صرف اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ایسے مشکل موقعوں پر جب انسان ساتھ جوڑ جائیں تو جانور آپکا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے۔
جہاں تک ڈیٹنگ کا سوال ہے تو وہ عرب معاشرے میں تھی نہ ہے اور نہ کبھی ہوگی۔ البتہ مرد و عورت کا شادی سے قبل ایک دوسرے کو کسی تیسرے کی مدد سے جاننے کا رواج تھا۔ اسلام کی آمد کے بعد وہ بھی ختم ہو گیا۔
۱) اخلاق کا اطلاق انسانوں پر ہوتا ہے۔ جانور کی جتنی ٹریننگ کی جائے وہ اتنا ہی سیکھتا ہے جو محض چند کرتبوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے لیے چوری ڈاکہ زنا جھوٹ غیبت سب بے معنی ہیں۔
۲) مرد و عورت کا نکاح سے قبل کسی تیسرے کی مدد سے ایک دوسرے کو جاننے کا رواج ختم کہاں ہوا؟ آج بھی موجود ہے۔ دونوں طرف کے رشتے دار نکاح سے قبل جو معلومات کرتے ہیں وہ اسی ضمن میں تو داخل ہیں۔
 

یاز

محفلین
اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ "ایک نوجوان لڑکی" یہ مکتوب تحریر نہ ہی فرماتی تو یہ سرپھٹول بھی نہ دیکھنے کو ملتی۔ اس نے اپنے تئیں معرکہ مارا، جبکہ یہاں دم مست قلندر کا منظر ہویدا ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
ڈیٹ پر بلانا کون سی سنت ہے؟ سیاق و سباق کو سمجھنے کے بعد رائے دینا چاہیے۔
کہاں مغربی لفظ ڈیٹ کا سیاق و سباق اور کہاں ایک لمحے کے لیے ایک باپردہ اور شرماتی ہوئی لڑکی آتی ہے اور نوجوان کو رقعہ دے کر رکے اور بات کیے بغیر واپس چلی جاتی ہے یعنی آپ اس سیاق و سباق کو سمجھ کر رائے دینے کی بابت فرما رہے ہیں قبلہ؟؟
 

نایاب

لائبریرین
پیدائش کے وقت بچہ روزے بھی خود بخود رکھتا ہے کیا ؟ یا کوئی ایسے بچے جو پرواز کی قوت رکھییں یا کوئی جنتی و دوذخی کی جوتیوں سے تخصیص کردیں ۔
بلوغت سے پہلے کے تمام معاملات براہ راست قدرت کی جانب سے عطا ہوئی معصومیت سے منسلک ہوتے ہیں ۔
مائیں اپنے بچوں کی شیر خوارگی کے زمانے بارے عجب کیفیات سے آگاہ ہوتی ہیں ۔
کہ نومولود بچہ کس ڈھنگ سے خود کو اس دنیا کے ماحول میں ہم آہنگ کر رہا ہے ۔
باقی پرواز جنت و دوزخ کی تفریق جیسی باتیں اکثر زیب داستان اور عقیدت میں غلو کی مثال ہوتی ہیں ۔
بہت دعائیں
 

arifkarim

معطل
اخلاق کا اطلاق انسانوں پر ہوتا ہے۔ جانور کی جتنی ٹریننگ کی جائے وہ اتنا ہی سیکھتا ہے جو محض چند کرتبوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے لیے چوری ڈاکہ زنا جھوٹ غیبت سب بے معنی ہیں۔
آپ لاکھ کوشش کر لیں انسان کو وفادار نہیں بنا سکتے۔ لیکن کتے جیسا جانور بغیر کسی تربیت کے اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے۔ جانوروں کی ذہانت انسانوں سے کم ہونے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ طبعی طور پر اخلاق نہیں سیکھ سکتے۔

۲) مرد و عورت کا نکاح سے قبل کسی تیسرے کی مدد سے ایک دوسرے کو جاننے کا رواج ختم کہاں ہوا؟ آج بھی موجود ہے۔ دونوں طرف کے رشتے دار نکاح سے قبل جو معلومات کرتے ہیں وہ اسی ضمن میں تو داخل ہیں۔
مرد و عورت کے بارہ میں تھرڈ پارٹی سے معلومات اکٹھی کرنا اور اسکی بنیاد پر زندگی کے فیصلے کرنا یقیناً ایک اچھا طریقہ ہے اور دیسی معاشروں میں ایک عرصہ سے رائج بھی ہے۔ البتہ اگر کوئی مرد عورت اپنی پسند سے شادی کرنا چاہیں تو اسمیں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ فطری شے ہے۔ اس معاملہ میں جبر یا زبردستی سے کام لینے کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوا۔
 
کیا اسے شئیر
""ابن ربانی"" ایک مشہور زمانہ مصنف کی کتاب
”انس یا نسیان پھر انسان“
سے لیا گیا ایک خط جسے پڑھ کر ہر پڑھنے والے کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلا
ایک لڑکی کا پہلا لو لیٹر
اس دن جب گلی میں میں کھڑا تھا تو ایک لڑکا ایک گھر کے باہر بار بار چکر لگا رہا تھا۔میں نے اس سے جا کے پوچھا بھائی کس کی تلاش ہے تو اس نے کہا کسی کی نہیں بس ایک دوست نے ادھر آنے کا وقت دیا وہ ابھی تلک آیا نہین خیر میں اس کی بات سن کے گھر چلا گیا اور کچھ لمحوں بعد اچانک سے نکلا تو میں نے دیکھا اسی گھر سے ایک لڑ کی سر جھکائے تیزی سے باہر آئی اور جلدی سے اس لڑکے کو ایک لفافہ دے کیرگھر بھاگ گئی۔۔لڑکا وہ لفافہ لے کر بہت ہی مسکریا اور اسے دل سے لگاتا ہوا وہاں سے چل دیا میں اپنی بری عادت کے مطابق تحقیق کرنے کے لیے اس کے پیچھے چل دیا وہ لڑکا ایک درخت کے نیچے جا کر رکا اور اس نے اس لفافہ کو کھولا جس کے اندر سے ایک صفحہ نکلا اس نے اس صفحہ کو کوئی تین سے چار بار چوما اور اپنی آنکھوں سے لگایا اور پڑھنے لگا میں دور سے اس کے چہرے کو اور حرکات کو دیکھ رہا تھا اور اپنی قیاس آرائیوں میں مصروف تھا اچانک سے دیکھا لڑکے نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور بے ہوش ہو کے گر پڑا۔میں بھاگتے ہوئے اس کے قریب گیا اور اس کے ہاتھ سے وہ ورق لے کر تجسس سے پڑھنے لگا۔۔یہ ایک خط تھا جو اس لڑکی نے اپنے اس عاشق کو لکھا۔۔
خط
السلام علیکم!
اے وہ نوجوان جس نے ابھی اپنی ماں کی گود سے باہر قدم رکھا ہے اور اس کی تربیت کرنے پر تھوک ڈالا ہے میں مانتی ہوں تیری سوچ کے مطابق جس محبت کا تو دعویدار ہے وہ سچی اور پکی ہے اور تو اس کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے لیے وفا بھی کرے گا کیونکہ اس محبت کا آغاز نظر کے ملنے سے ہوا تھا اور انجام جسم کے ملنے پر ہو گا کیونکہ میری ماں نے اپنے بیٹے عبدالرسول کو ایک دن کہا تھا بیٹا یہ نظر ابلیس کے تیروں میں سے ایک ہے اور جب یہ تیر چلتا ہے نا اس کی طاقت کبھی کبھی پورے پورے خاندان برباد کر دیتی ہے اور پھر جب اس کا بدلا مڑتا ہے تو لفظ عزت بھی سر جھکا کر انسانوں کی بستی سے نکل جاتا ہے لہذا اس آنکھ کو صرف اپنے سوہنے نبی کے چہرے کو دیکھنے کے لیے منتظر رکھنا ورنہ قیامت کے دن اپنے ماں کو نانا حضور ﷺ کی بارگاہ میں شرمندہ نہ کرنا کہ میں اس بات پر شرم کے مرے ڈوب مروں کے میں نے تیری تربیت میں کمی چھوڑ دی تھی۔۔تو سن اے خود کو خوبصورت شہزادہ اور مجھے دنیا کی حور سمجھنے والے میں ایک سید زادی ہوں اور میرا تعلق اماں فاطمہ ؓ کے قبیلہ سے ہے جو قیامت کو تمام جنتی عورتوں کی سردار ہوں گی میں نے اپنے لیے دعا مانگی ہے کہ اے اللہ مجھے جنت میں ان کی خادم بنانا تو تو خود فیصلہ کر اگر میں تیری محبت میں مبتلا ہو جاؤں تو خادمیت تو کیا مجھے جنت کے قریب بھی نہیں آنے دیا جائے گا۔۔رہا سوال تو نے جو مجھے کل شام باغ کے اس پیڑ کے نیچے ملنے کو بلایا ہے میں وہاں بھی آجاتی لیکن میں تم سے ایک وعدہ لوں کہ تو اپنی بہن گڈی کو بھی ساتھ لے کر آنا اور میں اپنے بھائی کو۔۔کیونکہ تیری نظر میں دنیا کی سب سے شریف عورت تیری گڈی بہن ہے اور میرے بھائی کی نظر میں دنیا کی سب سے شریف عورت میں ہوں اسطرح دونوں مردوں کی غلط فہمی دور ہو جائے گی اور اس کے بعد جب گاؤں میں یہ خبر پھیلے گی تو کوئی بھائی اپنی بہن کو شریف نہیں سمجھے گا اس طرح آئندہ محبت کرنے والوں پر ہمارا احسان رہے گا کہ یا تو وہ اس گنا سے ہماری وجہ سے دور رہیں گے یا انہیں ہر طرح کی آسانیا ں ہو جائیں گی رات کے تیسرے پہر کوئی بھائی اپنی بہن کو کسی باغ کے پیڑ کے نیچے ملنے سے نہیں روکے گاپھر جب یہ گنا اتنا عام ہو جائے گا تو لفظ غیرت کی تعریف بھی سب کو سمجھ آ جائے گی کہ اپنی بہن کی طرف کسی کی نگاہ نہ اٹھنے دینا غیرت نہں بلکہ اپنی نظروں کو کسی کی بہن کی طرف بڑھنے سے روکنے کا نام غیرت ہے۔۔اور اگر تو اس فلم یا ڈارامے کی بات کرتا ہے جس کو دیکھ کر تو نے مجھے خط لکھا تو ٹھیک ہے میں اسی طرح اسی لباس میں تجھے ملنے چلی آتی ہوں مگر تیری آنکھوں اور دل کی ہوس نے جب میرا بدن نوچا تو تو ناراض نہ ہونا کہ اس طرح کا ظاہری حسن و لطف سے لبریز موقع دنیا کا ہر مرد چاہتا ہے تو میری بات کو سمجھ تو رہا ہے نا کہ میرا بھائی خدا گوا ہ ہے وہ کردار کا بہت پکا ہے اس کا بھی تو حق بنتا ہے کہ وہ عیش کے کچھ لمحے گزارے وہ بھی تو جانے عشق کا لطف کیا ہے کسی کو ایک انگلش جملہ بول کر اس سے ایسی امیدیں وابستہ کرنا جس سے عورت بھی خود پر شرما جائے اور مرد کو جنم دینے والی عورت اپنی کوکھ پر لعنت بیجھے کہ عورت نے انبیاء کو جنم دیا اور ان کی تربیت کر کے زمانے کی دکھی انسانیت کو ظلم و ستم سے نکالا اور میں نے ایک اسے آدمی کو جنم دیا جو انسانیت ہی سے خالی ہے۔۔۔۔
اے میرے خوبرو عاشق تو جو محبت کر رہا ہے اس میں ہوس کی بو کے سوا کچھ نہیں کیا تیری ماں نے تجھے وہ قرآن نہیں پڑھایا جس میں مومن کی حیا کا ذکر ہر کیا تو مرد مومن اور حضور ﷺ کا وہ امتی نہیں جس نے ایمان کے درجوں میں سے ایک درجہ حیا کا پایا ہو۔۔۔میری باتیں پڑھ کر تجھے غصہ آیا ہو گا کہ میں نے تیری بہن کا ذکر کیوں کیا لیکن ایمان کی بات ہے ہر با حیا بھائی کی یہ کیفیت ہی ہوتی ہے مگر ایسا ہونا کہ اپنی بہن کے علاوہ کسی بھی عورت کو شریف نہ سمجھنا یہ گندی سوچ اور تربیت کا نتیجہ ہے۔۔تو حضرت علی ؓ کا بہت ہی ماننے والا ہے جیسا کے تیرا تذکرہ اس معاشرے میں کیا جاتا ہے مگر کیا تو نے مولا کائنات کا یہ فرمان نہیں پڑھا”اپنی سوچ کو پانی کے قطروں کی طرح صاف رکھو کیونکہ جس طرض پانی کے قطروں سے دریا بنتا ہے اسی طرح سوچ سے ایمان بنتا ہے“۔۔۔کیا تیرے پاس جو ایمان ہے وہ دیکھلاوے کا ہے حضرت علی ؓ کا سچا پیارا تیرے دل میں نہیں۔۔۔اور جیسا کرو گے ویسا بھرو گے والا قول بھی تو کسی عاقل کا ہے اس کا مطلب ہے تو اس کام کے انجام کے لیے تیار ہے اپنی ماں بہن کی ایسی عزت کا ہونا تیرے لیے عجیب نہیں ہو گا۔۔۔۔
میں تجھے تبلیغ نہیں کر رہی بس اتنا بتا رہی ہوں کہ تیری بہن گڈی جو کہ میری دوست ہے اس کو بھی ایک تجھ جیسے بے ایمان اور راہ بھٹکے نوجوان نے خط لکھا اور اسی پیڑ کے نیچے بلایا لیکن عین اسی وقت جب کے میں تجھے خط دے رہی ہوں تیری بہن نے بھی اسے خط دیا اور اسے اس کی محبت کا جواب دیا کہ وہ اس سے محبت کرے گی انہی باتوں اور شرائط کے ساتھ جو میں تجھے لکھ رہی ہوں اگر تجھے یہ سب میری باتیں منظور ہیں تو جا اور جا کہ گڈی کو بھی ایسا کرنے کی اجازت دے دے جو تو مجھ سے چاہتا ہے کیوں کہ اس لڑکے کو بھی میں نے یہ ہی الفاظ گڈی سے لکھوا کے دئیے اور اگر میں ایسا نہ کرتی تو وہ لڑکا بھی راہ راست پر نہ آتا اور تیری بہن بھی گمراہ ہو چکی ہوتی۔۔اب آخری دو باتیں جن کا تو اپنے اللہ سے وعدہ کرنا۔۔۔تونے مجھ پر بری نظر ڈالی تو تیرے لیے اللہ نے یہ مکافات عمل والا سبق پیدا کیا۔۔اور میں نے تیری بہن کو بری راہ سے بچایا اس لیے میں بھی اللہ کی عطاکردہ ہمت سے تیرے گمراہی اور اللہ کی ناراضگی والے جال سے بچ گئی ہوں۔۔اب اگر میرا تیری بہن پر احسان ہے تو پھر اس کو بھول کر اپنی گناہ کی ضد پر قائم رہنا چاہتا ہے تو اس دفعہ یاد رکھنا اللہ نے تجھے چار بہنیں اور ایک ماں دی ہے۔۔۔۔میں بھی اللہ سے دعا کروں گی کہ اللہ تجھے اور تیرے گھر والوں کو گمراہی اور ایسے گنا ہ سے بچائے اور تو بھی اللہ سے توبہ کر کہ حضرت علی ؓ جن سے تیری محبت مشہور ہے ان سے سچی اور دیکھلاوے سے پاک محبت کرنے لگ جا اور ان جیسی عظیم اور پاک ہستی کی محبت میں کسی عورت کو نہ لا ایسا نہ ہو جس حوا نے آدم کو جنت سے نکلوایا ہے وہ تجھے اس دنیا میں کہیں کا نہ چھوڑے اور تیری وہ پگڑی جس پر تجھے مان ہے وہ خاک کا حصہ بن جائے اور تیرے گھر میں عورت کا جنم لینا گناہ سمجھا جانے لگے۔۔میں چاہتی تو اپنے حقیقی غیرت مند بھائی کو بتا دیتی مگر میں نے تجھے تیری بہن کی خاطر معاف کیا کیونکہ تیرے لیے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے سمجھنا مشکل نہیں رہا۔۔۔اپنی بہن کو اس لڑکے کا مت پوچھنا ایسا نہ ہو کہ میرا بھائی بھی مجھ سے ایسی ضد کرے اس وقت سب سے اچھا حل اللہ کی باگاہ میں سچی معافی ہے میں اتجھے اللہ کے نام پر معاف کرتی ہوں اللہ سے بھی اس کی ایک سی زادی بندی کے متعلق غلط سوچ رکھنے کی معافی مانگ لینا۔۔۔
یہ میرا پہلا پیار کا خط ہے جس میں میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں اللہ سے اس کے حبیب ﷺ سے پیار کرتی ہوں اگر جس چیز کی تو دعوت دیتا ہے یہ میرے نبی پاک ﷺ کی سیرت میں ہوتی تو میں اس پر عمل کرتی اور اگر ایسا عمل اور اس کی مثال اماں فاطمہ کی زندگی میں ملتی تو میں اس پر عمل کرتی اور اگر ان کی زندگی میں نہیں اورمیری اور تیری والدہ کی زندگی میں ایسی ایک نہیں ہزار مثالیں بھی ہوتی تو بھی تو مجھے ہرگز اس دعوت کا قبول کرنے والا نہ پاتا۔۔اللہ تیری بہنوں اور میری عزت کی حفاظت فرمائے۔۔
میں اللہ سے پیار کرتی ہوں۔۔میں اللہ سے پیار کرتی ہوں۔۔میں اللہ سے پیار کرتی ہوں،
والسلام۔۔۔۔
اللہ کی بندی
حضور کی امتی
امت محمدی کی بیٹی۔۔

بشکریہ فیس بک

اچھی بات جہاں سے ملے لے لو۔ کیا اسے شئیر کرنے کی اجازت ہے ؟
 

نایاب

لائبریرین
اگر کوئی مرد عورت اپنی پسند سے شادی کرنا چاہیں تو اسمیں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ فطری شے ہے۔
متفق ۔۔۔
بلاشک اس عمل پر روک لگانے اور زبردستی کرنے کے نتائج کبھی بھی مردو عورت کے لیے بہتر نہیں ہوتے ۔
اور نہ ہی ایسی کوئی " روک " ہے سلامتی کے دین میں ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
حمیرا عدنان یہ کوئی عربی رائٹر ہیں جن کی کتاب کا حوالہ دیا گیا ؟
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے ساتھ مخصوص ہے۔ ان کے مکاتیب کی اہمیت، حقیقت اور تاثیر مسلم ہے۔ تاہم شریک کردہ خط کی بابت کسی بھی قسم کا بیان دینے سے خود کو معذور پاتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کوئی صاحب علم اس کے متعلق بیان کر سکے۔
 

سید عمران

محفلین
آپ لاکھ کوشش کر لیں انسان کو وفادار نہیں بنا سکتے۔ لیکن کتے جیسا جانور بغیر کسی تربیت کے اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے۔ جانوروں کی ذہانت انسانوں سے کم ہونے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ طبعی طور پر اخلاق نہیں سیکھ سکتے۔


مرد و عورت کے بارہ میں تھرڈ پارٹی سے معلومات اکٹھی کرنا اور اسکی بنیاد پر زندگی کے فیصلے کرنا یقیناً ایک اچھا طریقہ ہے اور دیسی معاشروں میں ایک عرصہ سے رائج بھی ہے۔ البتہ اگر کوئی مرد عورت اپنی پسند سے شادی کرنا چاہیں تو اسمیں بھی کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ فطری شے ہے۔ اس معاملہ میں جبر یا زبردستی سے کام لینے کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوا۔
پہلی بات یہ آپ کے نزدیک وفاداری کی تعریف کیا ہے؟
دوسری بات یہ کہ پسند کی شادی کی ممانعت کے بارے میں تو میں نے کچھ کہا ہی نہیں۔آپ نے موضوع سے ہٹ کر یہ بات کی ہے۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
وجود زن اور ابن آدم کی رفاقت کا کیا صرف یہی طریقہ ہے کہ جو مرد جس عورت سے جس طرح چاہے ملے یا کوئی حدود ہیں؟ یہ آزادی تو گلی کے کتے بلیوں کو بھی حاصل ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے انسان کے اخلاق کو حیوان سے بلند تر کرنے کی حدود بتائیں۔اسلام بیزار لوگ جس طرح چاہیں زندگی گزاریں لیکن جب خدا کے احکام پر طنز کریں گے ان کا جواب دینے والے موجود ہوں گے۔
اگر اپنی تاریخ پڑھی ہوتی تو پتا ہوتا کہ اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی شادی کے پیغام عرب خواتین خود دیا کرتی تھیں ۔ اس پیغام رسائی کو کس کھاتے میں ڈالیں گے ؟ خواتین کیسے پسند کرتی تھیں کسی کو اور کیا کسی کو شادی سے پہلے شادی کی نیت سے پسند کرنا گناہ ہے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو اسلام نے جو عورت کو حق دیا ہے شادی کے لیے اپنی مرضی کا اس کی کیا حیثیت ہے آپ کی نظر میں ؟؟
خود کو عالم دین کا فرضی منصب دینے سے پہلے دین کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
حمیرا بہنا۔ یہاں کسی کی باتوں سے اپنا دل مت دکھانا۔
ابھی کچھ دن پہلے آپ نے سکے کا ایک رخ دیکھا تھا تو امید ہے کہ آج دوسرا بھی دیکھ لیا ہوگا۔ لیکن یہاں سکے کے صرف دو رخ ہی نہیں ہیں۔ امید ہے کہ آپ کو تیسرا رخ بھی کچھ دنوں میں دکھائی دے جائے گا۔ :)

ایک اچھی، بہترین اور سبق آموز تحریر شامل محفل کرنے کے لیے شکریہ۔
حمیرا خاصی متوازن شخصیت رکھتی ہیں مجھے نہیں لگتا وہ آپ جتنی نازک مزاج ہیں کہ مذاق کو دل پر لے لیں ۔
 
البتہ مرد و عورت کا شادی سے قبل ایک دوسرے کو کسی تیسرے کی مدد سے جاننے کا رواج تھا۔ اسلام کی آمد کے بعد وہ بھی ختم ہو گیا۔

اسلام نے تو رشتہ ازدواج میں جڑنے سے پہلے رضا مندی اور ایک دوسرے کو دیکھ لینے سے منع نہیں کیا۔ یہ الزام ہے۔
مجھے حوالہ یاد نہیں لیکن ایک بار ایک عالمِ دین نے کہا تھا کہ ایک صحابی نے کہا میرا فلاں جگہ نکاح کی جانب رجوع ہوگیا ہے (جسے آجکل رسما منگنی کہہ سکتے ہیں) اسکے جواب میں نبی کریم ﷺ نے کہا کہ کیا تم اپنے ہونے والی بیوی سے مل چکے ہو۔ اور یہ تین بار ارشاد فرمایا۔ میری شادی سے قبل یہ حدیثِ پاک ایک عالمِ دین ہیں انہوں نے سنائی تھی اور مشورہ دیا تھا کہ میں ہونے والی شریکِ حیات سے بات کر لوں۔
 

سید عمران

محفلین
اگر اپنی تاریخ پڑھی ہوتی تو پتا ہوتا کہ اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی شادی کے پیغام عرب خواتین خود دیا کرتی تھیں ۔ اس پیغام رسائی کو کس کھاتے میں ڈالیں گے ؟ خواتین کیسے پسند کرتی تھیں کسی کو اور کیا کسی کو شادی سے پہلے شادی کی نیت سے پسند کرنا گناہ ہے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو اسلام نے جو عورت کو حق دیا ہے شادی کے لیے اپنی مرضی کا اس کی کیا حیثیت ہے آپ کی نظر میں ؟؟
خود کو عالم دین کا فرضی منصب دینے سے پہلے دین کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے ۔
۱) خواتین شادی کے لیے شوہر اس لیے پسند کرلیتی تھیں کہ اس زمانے میں شہر اتنے بڑے نہیں ہوتے تھے جتنے آج ہیں ، لہٰذا سب ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف ہوتے تھے۔ اور ضروری معلومات دوسروں سے معلوم بھی کرسکتے تھے۔
۲) یہ بات موضوع سے ہٹ کر کی گئی ہے۔ موضوع تھا لڑکے لڑکیوں کا درختوں کے نیچے ملاقاتیں کرنا، آج کل کی ٹرم میں ڈیٹ مارنا۔
۳) ساری باتیں خود ہی اخذ کرلیں۔ یہاں کب کسی نے عالم ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘، ’’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ‘‘ اور ’’الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ‘‘ جیسی کتب کا تھوڑا سا مطالعہ کیا ہے جس سے صحابہ کے دور کی معاشرت کی کچھ تصویر عیاں ہوئی۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
۱) خواتین شادی کے لیے شوہر اس لیے پسند کرلیتی تھیں کہ اس زمانے میں شہر اتنے بڑے نہیں ہوتے تھے جتنے آج ہیں ، لہٰذا سب ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف ہوتے تھے۔ اور ضروری معلومات دوسروں سے معلوم بھی کرسکتے تھے۔
۲) یہ بات موضوع سے ہٹ کر کی گئی ہے۔ موضوع تھا لڑکے لڑکیوں کا درختوں کے نیچے ملاقاتیں کرنا، آج کل کی ٹرم میں ڈیٹ مارنا۔
۳) ساری باتیں خود ہی اخذ کرلیں۔ یہاں کب کسی نے عالم ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘، ’’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ‘‘ اور ’’الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ‘‘ جیسی کتب کا تھوڑا سا مطالعہ کیا ہے جس سے صحابہ کے دور کی معاشرت کی کچھ تصویر عیاں ہوئی۔
اس پسند پر کچھ روشنی ڈالیے
کیا پسند کسی کی ظاہری شکل و صورت کو کہہ رہے ہیں ؟ یا پھر ان کی عادات اور خصائل بھی ؟؟
اگر پسند شکل و صورت سے بڑھ کر تھی تو کیسے تھی ؟
کیا کسی ایک کتاب کے مطالعے سے کسی معاشرت کے بارے میں رائے اخذ کر لینا مناسب ہے ؟
 

سید عمران

محفلین
اس پسند پر کچھ روشنی ڈالیے
کیا پسند کسی کی ظاہری شکل و صورت کو کہہ رہے ہیں ؟ یا پھر ان کی عادات اور خصائل بھی ؟؟
اگر پسند شکل و صورت سے بڑھ کر تھی تو کیسے تھی ؟
کیا کسی ایک کتاب کے مطالعے سے کسی معاشرت کے بارے میں رائے اخذ کر لینا مناسب ہے ؟
محترمہ، اگرچہ موضوع سے ہٹ گئے ہیں تاہم اتنا عرض کرتا ہوں کہ مردوں کی طرح خواتین کی پسند کابھی الگ الگ معیار ہے۔ کچھ حسن، کچھ دولت اور کچھ اچھے اخلاق پسند کرتے ہیں۔ اس پر دو واقعات جو آپ نے بھی پڑھے ہوں گے تاہم تکرارِ علم کے لیے عرض کردیتا ہوں۔
۱) حضرت بریرہ نے اپنے شوہر سے صرف اس لیے خلع لی کہ ان کی صورت پسند نہیں تھی۔
۲) حضرت ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ بڑے سردار کی بیٹی تھیں۔ان کے والد نے نکاح کے لیے ان کے سامنے چند رشتے رکھے تو انہوں نے بوجوہ حضرت ابوسفیان کو پسند کیا ۔ اور ظاہری حسن سے زیادہ دیگر خصوصیات کو ترجیح دی۔
سب سے بہتر راستہ افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شادی کے وقت لڑکی کو بھی بالکل لڑکے کی طرح پسند ناپسند کا حق دیا ہے۔ اور لڑکے کو بھی بالکل لڑکی کی طرح ایک دوسرے سے بے حجابانہ اختلاط سے روکا ہے۔ آپ خود بتائیے کہ ان دونوں میں پاکیزگی کا راستہ کون سا ہے؟کل اگر کسی کی اولاد کو پتا چلے گا کہ ہماری ماں اتنے لڑکوں سے چھپ کر ملتی تھی تو ماں کا جو تقدس ہے وہ پامال ہوگا یا نہیں؟
دوسری بات یہ کہ میں نے کسی ایک کتاب کا نہیں تین کتابوں کا تو نام لکھ دیا ہے اور ’’ان جیسی کتابیں ‘‘ لکھ کر کتابوں کو محدود نہیں رکھا۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
محترمہ، اگرچہ موضوع سے ہٹ گئے ہیں تاہم اتنا عرض کرتا ہوں کہ مردوں کی طرح خواتین کی پسند کابھی الگ الگ معیار ہے۔ کچھ حسن، کچھ دولت اور کچھ اچھے اخلاق پسند کرتے ہیں۔ اس پر دو واقعات جو آپ نے بھی پڑھے ہوں گے تاہم تکرارِ علم کے لیے عرض کردیتا ہوں۔
۱) حضرت بریرہ نے اپنے شوہر سے صرف اس لیے خلع لی کہ ان کی صورت پسند نہیں تھی۔
۲) حضرت ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ بڑے سردار کی بیٹی تھیں۔ان کے والد نے نکاح کے لیے ان کے سامنے چند رشتے رکھے تو انہوں نے بوجوہ حضرت ابوسفیان کو پسند کیا ۔ اور ظاہری حسن سے زیادہ دیگر خصوصیات کو ترجیح دی۔
سب سے بہتر راستہ افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شادی کے وقت لڑکی کو بھی بالکل لڑکے کی طرح پسند ناپسند کا حق دیا ہے۔ اور لڑکے کو بھی بالکل لڑکی کی طرح ایک دوسرے سے بے حجابانہ اختلاط سے روکا ہے۔ آپ خود بتائیے کہ ان دونوں میں پاکیزگی کا راستہ کون سا ہے؟کل اگر کسی کی اولاد کو پتا چلے گا کہ ہماری ماں اتنے لڑکوں سے چھپ کر ملتی تھی تو ماں کا جو تقدس ہے وہ پامال ہوگا یا نہیں؟
دوسری بات یہ کہ میں نے کسی ایک کتاب کا نہیں تین کتابوں کا تو نام لکھ دیا ہے اور ’’ان جیسی کتابیں ‘‘ لکھ کر کتابوں کو محدود نہیں رکھا۔
عمران صاحب
آپ کے دلائل میں وہ سب کچھ ہے جو ان کتابوں میں دکھایا گیا ہے ۔
شادی کی نیت سے کسی سے درخت کے نیچے ملنا احمقانہ حرکت ہے جسے آپ ڈیٹ کہہ رہے ہیں وہ بھی آپ کی ذہنی اختراع ہے اور مغربی معاشرے میں ڈیٹ جس کا تصور آپ کے ذہن میں ہے وہ بھی کسی کی عادات اور اطوار جاننے کے لیے ہی ہوتیں ہیں اکثر ۔ جہاں آپ کا تخیل جا رہا ہے ڈیٹ کے نام پر وہ ضروری نہیں کہ ہر ملاقات کا حصہ ہو ۔
کسی سے اپنے اقدار اور روایات کی حدود میں رہ کر گفتگو کرنا کوئی معیوب حرکت نہیں ۔
یہاں مساجد میں اکثر ایسے رشتے طے کیے جاتے ہیں اور دونوں فریقین کو ایک دوسرے سے گفتگو اور ملاقات کی سہولت دی جاتی ہے میری ایک جاننے والی خاتون کی ایک نومسلم سے شادی مسجد کے ذریعے طے پائی تھی تو اس بارے میں کیا کہیں گے آپ ؟؟
 

صائمہ شاہ

محفلین
سید عمران غیر متفق دلیل سے ہوا جاتا ہے اسلام نے آپ کو بولنے اور لکھنے کی طاقت دی ہے مگر اسلامی اقدار جیسے وسعت اور رواداری اس سے بہرہ ور نہیں ہوئے آپ ۔ میں آپ سے سوال کررہی ہوں آپ جواب سے مجھے قائل کیجیے ریٹنگ سے جارحیت کی بو آتی ہے اور میں نے دانستہ آپ کو غیر متفق سے نوازا تھا آپ کا ری ایکشن دیکھنے کے لیے ۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ گفتار کے ساتھ کردار کتنا اسلامی ہے اور ایک ریٹنگ سے ہی جان لیا :)
سلامت رہیے میں آپ کی جارحیت سے گفتگو نہیں کرنا چاہتی ۔ مکالمے کے آداب ہوتے ہیں مگر آپ عمل اور ردعمل کی گردش سے ہی آزاد نہیں تو رحمت اللعالمین کے دین کی وکالت کے قابل نہیں ۔
گفتار کے ساتھ کردار نہ ہو تو سب بیکار ۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
عمران صاحب
آپ کے دلائل میں وہ سب کچھ ہے جو ان کتابوں میں دکھایا گیا ہے ۔
شادی کی نیت سے کسی سے درخت کے نیچے ملنا احمقانہ حرکت ہے جسے آپ ڈیٹ کہہ رہے ہیں وہ بھی آپ کی ذہنی اختراع ہے اور مغربی معاشرے میں ڈیٹ جس کا تصور آپ کے ذہن میں ہے وہ بھی کسی کی عادات اور اطوار جاننے کے لیے ہی ہوتیں ہیں اکثر ۔ جہاں آپ کا تخیل جا رہا ہے ڈیٹ کے نام پر وہ ضروری نہیں کہ ہر ملاقات کا حصہ ہو ۔
کسی سے اپنے اقدار اور روایات کی حدود میں رہ کر گفتگو کرنا کوئی معیوب حرکت نہیں ۔
یہاں مساجد میں اکثر ایسے رشتے طے کیے جاتے ہیں اور دونوں فریقین کو ایک دوسرے سے گفتگو اور ملاقات کی سہولت دی جاتی ہے میری ایک جاننے والی خاتون کی ایک نومسلم سے شادی مسجد کے ذریعے طے پائی تھی تو اس بارے میں کیا کہیں گے آپ ؟؟
۱) پہلے آپ نے کہا کہ اپنی تاریخ پڑھی ہوتی تو۔۔۔
۲) جب تاریخ پیش کی تو فرمایا کہ کتابی باتیں پیش کررہے ہیں۔۔۔
۳) پھر ذہنی اختراع کا نام دیا۔۔۔۔
۴) آخر میں مسلمانوں کو مغرب کے معاشرے کے حوالے دیے۔۔۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔۔۔
 
Top