میرے محترم بھائی
آپ خود ہی اپنے سوال کا جواب ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دھاگہ پر جو بات چل رہی ہے وہ عرب معاشرت کے لحاظ سے " لڑکی اور لڑکے کی شادی بارے ہے ۔
آپ ماشاء اللہ تین کتابوں کو حوالہ دے گئے مگر اصل جواب سے دور رہتے ۔
درج ذیل حدیث سے آپ کو عرب معاشرت میں " شادی " بارے آگہی مل سکتی ہے ۔
(صحیح البخاری:باب القراء ة عن ظہرالقلب،جز٦،ص١٩٢/صحیح البخاری:باب النظرالی المرء ة قبل،جز٧،ص١٤)
(ترجمہ) سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئیں اور عرض کی یا رسول اللہ!میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو ہبہ کرنے آئی ہوں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور نظر اٹھا کر دیکھا ۔ پھر نظر نیچی کرلی اورسر کو جھکا لیا ۔ جب خاتون نے دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو بیٹھ گئیں ۔ اس کے بعد ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ!اگر آپ کو ان کی ضرورت نہیں تو ان کا نکاح مجھ سے کرادیجیے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ انہوں نے عرض کی کہ نہیں، یارسول اللہ!اللہ کی قسم۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر جاؤ اور دیکھوشاید کوئی چیز مل جائے ۔ وہ گئے اور واپس آکر عرض کی کہ نہیں، یا رسول ا للہ!میں نے کوئی چیز نہیں پائی ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور دیکھ لو ،اگر ایک لوہے کی انگو ٹھی بھی مل جائے۔
وہ گئے اور واپس آکر عرض کیاکہ یارسول اللہ!مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی البتہ یہ میرا تہمد ہے ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی (ان صحابی نے کہا کہ )ان خاتون کو اس تہمد میں سے آدھا عنایت فرما دیجیے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے تہمد کا کیا کرے گی اگر تم اسے پہنو گے تو اس کے لیے اس میں سے کچھ باقی نہیںرہے گا ۔ اس کے بعد وہ صاحب بیٹھ گئے اور دیر تک بیٹھے رہے ۔پھر کھڑے ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس جاتے ہوئے دیکھا اور انہیں بلانے کے لیے فرمایا ، انہیں بلایا گیا ۔ جب وہ آئے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا تمہارے پاس قرآن مجید کتنا ہے ۔ انہوں نے عرض کیا فلاں فلاںسورتیں۔ انہوں نے ان سورتوں کو گنا یا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم ان سورتوں کو زبانی پڑھ لیتے ہو ۔ انہوں نے ہاں میں جواب دیا ۔پھرحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرما یا جاؤ میں نے اس خاتون کو تمہارے نکاح میں اس قرآن کی وجہ سے دیا جو تمہارے پاس ہے۔ ان سورتوں کو ا سے یاد کرادو۔
اس پوری حدیث کوایک بارپھرغورسے پڑھ لیجیے ،اس سے بہت سی باتیں معلوم ہوئیں ،چندیہا ں درج کی جاتی ہیں: (١)خاتون نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں خودآکر حضور سے شادی کی خواہش کااظہارکیا۔ (٢)حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خواہش کااحترام کرتے ہوئے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر نظریں نیچے کرلیں۔اسے جھڑکانہیں ، اسے ڈانٹا نہیں ۔ (٣)فَقَامَ رَجُل مِنْ اَصْحَابِہ کے الفاظ بتارہے ہیں کہ مجلس میں کئی صحابہ موجودتھے اس کے باوجوداس خاتون کی آمداوراس کی خواہش کے اظہارپرحضورناراض ہوئے اورنہ صحابہ مشتعل بلکہ حضور نے خاتون کے چہرے پرایک نظرڈال کرقیامت تک کے لیے شادی کے متعلق دینی موقف کی وضاحت فرمادی۔
(٤) صحابی رسول کووہ خاتون بھاگئیں ،توانہوںنے حضورکی خاموشی کے بعدکھڑے ہوکراس خاتون سے شادی کی پیش کش کردی۔انہوں نے حضورکے سامنے اورصحابہ کے سامنے ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا،شرم محسوس نہیں کی۔
اس حدیث سے ایک بات واضح طورپرمعلوم ہوتی ہے کہ شادی میں لڑکی کی رضامندی کابھرپورخیال رکھاجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکمل مضمون کے لیئے
بہت دعائیں