ایک وصیت کی تعمیل

عاطف بٹ

محفلین
1927ء میں مولوی عبدالحق نے عثمانیہ انٹرمیڈیٹ کالج کے کالج ڈے کے موقع پر مرزا فرحت اللہ بیگ کی معروف و مقبول تمثیل ’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘ اسٹیج کرنے کیلئے فرحت اللہ بیگ کو مدعو کیا تھا۔
کاچی گوڑہ (حیدرآباد) ریلوے اسٹیشن پر وحید الدین سلیم مجمع کو چیرتے پھاڑتے فرحت اللہ بیگ کے پاس آئے اور گلے مل کر مبارکباد دیتے ہوئے بولے: میاں فرحت ! تم نے نذیر احمد کا اتنا اچھا خاکہ لکھا ہے کہ بس کیا بتاؤں۔ اگر مجھ پر کوئی ایسا خاکہ لکھے تو آج مرنے کیلئے تیار ہوں۔
مرزا فرحت اللہ بیگ نے برجستہ کہا: بسم اللہ کیجئے! خاکہ میں لکھ دوں گا۔
اس ملاقات کے سال بھر کے اندر ہی مولوی وحید الدین سلیم پانی پتی کا انتقال ہو گیا اور مرزا فرحت اللہ بیگ کو ان کی وصیت پوری کرنی پڑی۔ اس خاکے کا عنوان ’ایک وصیت کی تعمیل‘ ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
عظیم بیگ چغتائی ایک بڑے مزاح نگار اور صاحب کردارادیب تھے۔ جبکہ ان کی چھوٹی بہن عصمت چغتائی، ادیبہ خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، کردار کے معاملہ میں اپنے بھائ کی ضد تھیں۔ :) اسی باعث عظیم بیگ چغتائی نے انہیں گھر سے باہر نکال دیا حالانکہ عصمت نے لکھنا لکھانا اپنے بھائی ہی سے سیکھا تھا۔ القصہ مختصر عظیم بیگ چغتائی کی وفات پر اُن کی اس بہن نے اپنے بھائی پر جو خاکہ لکھا تھا، اُس کا عنوان ”دوزخی“ رکھا۔ :eek: اس خاکہ کو پڑھ کرعصمت ہی کے ادبی مسلک :mrgreen: سے وابستہ سعادت حسن منٹونے کہا تھا: اگر میری بہن بھی مجھ پر ایسا خاکہ لکھنے کا وعدہ کرے تو میں اسی وقت مرنے کو تیار ہوں۔:)
 

نیلم

محفلین
ہمارہ بھی کوئی خاکہ لکھ دے لیکن مرنے سے پہلے پہلے ہی ۔۔۔بعد میں ہمیں کیا پتہ چلے گا کیسا خاکہ لکھا گیا تھا :)
 

عسکری

معطل
ہمارہ بھی کوئی خاکہ لکھ دے لیکن مرنے سے پہلے پہلے ہی ۔۔۔ بعد میں ہمیں کیا پتہ چلے گا کیسا خاکہ لکھا گیا تھا :)
یہ لیں آپکا خاکہ سسٹر
550px-Draw-an-Anime-Girl-Step-1.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
یہ تو بہت مختصر قسم کا انٹرویو تھا کیونکہ اس میں انٹرویو والے سوال جواب کم اور ادھر ادھر کی باتیں زیادہ تھیں۔
 
Top