سارہ بشارت گیلانی
محفلین
مجهے خاموش رہنے دو، زباں ہے کٹ چکی میری، لبوں کو سی لیا میں نے..
میری آنکھیں بهی مت کهولو انہیں بے نور رہنے دو..
مرے کانوں کے پردے پهٹ چکے ہیں، یوں ہی رہنےدو..
مرے چاروں طرف پھیلی ہوئی تاریکیاں جو ہیں،
میں اپنا خوں جلا کر رات دن ان کو بهگاتا تها،
مگر ناکام رہتا تها..
مری دنیا بہت تاریک ہے، تاریک رہنے دو!
مجهے گمنام رہنے دو..
کہ جو بهی ہو رہا ہے چار سو میرے مجهے اس سے بهی اب انجان رہنے دو..
ذہن بهی سو چکا کب کا، ہے دل بهی مر چکا اب تو..
مری آواز بهی میرے ہی اندر کهو چکی کب کی..
انا میری، مری غیرت بهی اب تو مر گئی کب کی..
مرے جو خواب تهے ان کو بهی میں نے دفن کر ڈالا..
مرے اپنوں مرے پیاروں کو بهی تو بارہا میں نے..
اڑا ڈالا، مٹا ڈالا، جلا ڈالا دھماکوں میں..
نہیں مجھ کو کوئی دنیا میں اب پہچاننے والا..
نہ مجھ کو جاننے والا، نہ مجھ کو چاہنے والا..
کوئی میرا نہیں زندہ کوئی میرا نہیں باقی..
نہ میرے پاس ہی کچھ ہے...
نہ ہی آٹا نہ تو چینی نہ پانی ہے نہ ہی بجلی۔۔
مرے جو حکمراں ہیں میرا راشن وہ چراتے ہیں..
جو میں کرتا ہوں محنت اس کا پهل بهی وہ ہی کهاتے ہیں..
میری بہنا تهی بهوکی۔۔۔
بهوک سے جب رویا کرتی تهی
مرے ابا کمر جن کی وزن سے جهک چکی تهی وہ
مری اماں کو اپنے خان کی جهوٹن تهماتے تهے..
وہ اسکو گهول کر پانی میں ترکاری بناتی تهیں..
مری بہنا وہ کهاتی تهی..
میں مزدوری کیا کرتا تها دن بهر اور گهر آ کر
میں بهوکا سویا کرتا تها..
مرے ابا کو آخر بوجھ نے ان کے کچل ڈالا..
مری اماں نے بیچا بہن کو اور خود وہ جا ڈوبی
میں بیٹھا تک رہا تها گهر کی دیواروں پہ سایوں کو
مرے اس گهر مری اس زندگی نے کیا دیا مجھ کو!
نہ میرے پاس کچھ کهونے کو باقی ہے نہ رونے کو!
کسی کی سوچ ہے نہ فکر ہے نہ آس باقی ہے
اگر کچھ ہے تو یہ سانسیں ہیں جو دل کو جلاتی ہیں!
اب اس شعلے کو بهڑکا کے میں خود کو آگ کرتا ہوں!
اور اس ہی آگ میں، میں اپنی دنیا کو جلاتا ہوں..
مری آنکھوں پہ میرے دل پہ پردہ پڑ چکا ہے سو
اب اس کو یوں ہی رہنے دو
کسی سے کچھ نہیں کہتا ہوں چپ ہوں
چپ ہی رہنے دو
میرا یہ حال، یہ ہے جرم کسکا یہ نہیں پوچھو۔۔
مجهے خاموش رہنے دو، زباں ہے کٹ چکی میری لبوں کو سی لیا میں نے..
جلاتا ہوں میں جلتے دل سے اب سارا جہاں اپنا..
تو مجھ کو یوں ہی رہنے دو..
میری آنکھیں بهی مت کهولو انہیں بے نور رہنے دو..
مرے کانوں کے پردے پهٹ چکے ہیں، یوں ہی رہنےدو..
مرے چاروں طرف پھیلی ہوئی تاریکیاں جو ہیں،
میں اپنا خوں جلا کر رات دن ان کو بهگاتا تها،
مگر ناکام رہتا تها..
مری دنیا بہت تاریک ہے، تاریک رہنے دو!
مجهے گمنام رہنے دو..
کہ جو بهی ہو رہا ہے چار سو میرے مجهے اس سے بهی اب انجان رہنے دو..
ذہن بهی سو چکا کب کا، ہے دل بهی مر چکا اب تو..
مری آواز بهی میرے ہی اندر کهو چکی کب کی..
انا میری، مری غیرت بهی اب تو مر گئی کب کی..
مرے جو خواب تهے ان کو بهی میں نے دفن کر ڈالا..
مرے اپنوں مرے پیاروں کو بهی تو بارہا میں نے..
اڑا ڈالا، مٹا ڈالا، جلا ڈالا دھماکوں میں..
نہیں مجھ کو کوئی دنیا میں اب پہچاننے والا..
نہ مجھ کو جاننے والا، نہ مجھ کو چاہنے والا..
کوئی میرا نہیں زندہ کوئی میرا نہیں باقی..
نہ میرے پاس ہی کچھ ہے...
نہ ہی آٹا نہ تو چینی نہ پانی ہے نہ ہی بجلی۔۔
مرے جو حکمراں ہیں میرا راشن وہ چراتے ہیں..
جو میں کرتا ہوں محنت اس کا پهل بهی وہ ہی کهاتے ہیں..
میری بہنا تهی بهوکی۔۔۔
بهوک سے جب رویا کرتی تهی
مرے ابا کمر جن کی وزن سے جهک چکی تهی وہ
مری اماں کو اپنے خان کی جهوٹن تهماتے تهے..
وہ اسکو گهول کر پانی میں ترکاری بناتی تهیں..
مری بہنا وہ کهاتی تهی..
میں مزدوری کیا کرتا تها دن بهر اور گهر آ کر
میں بهوکا سویا کرتا تها..
مرے ابا کو آخر بوجھ نے ان کے کچل ڈالا..
مری اماں نے بیچا بہن کو اور خود وہ جا ڈوبی
میں بیٹھا تک رہا تها گهر کی دیواروں پہ سایوں کو
مرے اس گهر مری اس زندگی نے کیا دیا مجھ کو!
نہ میرے پاس کچھ کهونے کو باقی ہے نہ رونے کو!
کسی کی سوچ ہے نہ فکر ہے نہ آس باقی ہے
اگر کچھ ہے تو یہ سانسیں ہیں جو دل کو جلاتی ہیں!
اب اس شعلے کو بهڑکا کے میں خود کو آگ کرتا ہوں!
اور اس ہی آگ میں، میں اپنی دنیا کو جلاتا ہوں..
مری آنکھوں پہ میرے دل پہ پردہ پڑ چکا ہے سو
اب اس کو یوں ہی رہنے دو
کسی سے کچھ نہیں کہتا ہوں چپ ہوں
چپ ہی رہنے دو
میرا یہ حال، یہ ہے جرم کسکا یہ نہیں پوچھو۔۔
مجهے خاموش رہنے دو، زباں ہے کٹ چکی میری لبوں کو سی لیا میں نے..
جلاتا ہوں میں جلتے دل سے اب سارا جہاں اپنا..
تو مجھ کو یوں ہی رہنے دو..