محسن حجازی
محفلین
خلوت میں ہجوم، ہجوم میں فرد ہو جاتے ہیں
ہم ہیں وہ پتے جو قبل از خزاں زرد ہو جاتے ہیں
جو مانگتے ہیں دعائے گریزِ ابتلائے دوراں، سو وہ رہ جاتے ہیں
سو جو گزر جاتے ہیں ان سے وہ مجھ سے جواں مرد ہوجاتے ہیں
معلق ہوتے نہیں کبھی بیچ انتہاوں کے، گر ہوں بھی تو کچھ ایسے
یا ٹھہرتے ہیں میر کارواں ہم ہی، یا راستے کی گرد ہو جاتے ہیں
نا حق ترا شکوہ بے رخی جاناں، کس نے کہا اسے یہ جنس نایاب عطا کر
کہ محبت بھی اک درد ہے، پاکر لوگ اسے بے درد ہو جاتے ہیں
ہم ہیں وہ پتے جو قبل از خزاں زرد ہو جاتے ہیں
جو مانگتے ہیں دعائے گریزِ ابتلائے دوراں، سو وہ رہ جاتے ہیں
سو جو گزر جاتے ہیں ان سے وہ مجھ سے جواں مرد ہوجاتے ہیں
معلق ہوتے نہیں کبھی بیچ انتہاوں کے، گر ہوں بھی تو کچھ ایسے
یا ٹھہرتے ہیں میر کارواں ہم ہی، یا راستے کی گرد ہو جاتے ہیں
نا حق ترا شکوہ بے رخی جاناں، کس نے کہا اسے یہ جنس نایاب عطا کر
کہ محبت بھی اک درد ہے، پاکر لوگ اسے بے درد ہو جاتے ہیں