چوہدری لیاقت علی
محفلین
ایک پرندہ ٹہنی ٹہنی ڈولتا ہے
مجھ میں کوئی اُڑنے کو پر تولتا ہے
کوئی تو ہے جو تلخ سمندر کی تہ میں
چپکے چپکے میٹھا دریا گھولتا ہے
کنجِ چشم سے کنجِ لب تک آتے ہوئے
ڈھلتا آنسو لمحہ لمحہ بولتا ہے
سانس میں ریت کی لہریں کروٹ لیتی ہیں
اب میرے لہجے میں صحرا بولتا ہے
جیسے بوندیں دل پر دستک دیتی ہوں
جیسے کوئی دروازہ سا کھولتا ہے
(سعود عثمانی )
مجھ میں کوئی اُڑنے کو پر تولتا ہے
کوئی تو ہے جو تلخ سمندر کی تہ میں
چپکے چپکے میٹھا دریا گھولتا ہے
کنجِ چشم سے کنجِ لب تک آتے ہوئے
ڈھلتا آنسو لمحہ لمحہ بولتا ہے
سانس میں ریت کی لہریں کروٹ لیتی ہیں
اب میرے لہجے میں صحرا بولتا ہے
جیسے بوندیں دل پر دستک دیتی ہوں
جیسے کوئی دروازہ سا کھولتا ہے
(سعود عثمانی )