احمد وصال
محفلین
اک پہیلی کے اشارات میں رہتا ہے وہ
یوں مجسم سا میری ذات میں رہتا ہے وہ
بند آنکھوں سے اسے روز یہاں دیکھتا ہوں
ہاں مرے دل کے مضافات میں رہتا ہے وہ
اس کو بھولا ہوں ؟ تری بات غلط ہے صاحب
میری راتوں کی مناجات میں رہتا ہے وہ
میں نے اک بار بنایا تھا جسے پنسل سے
اسی خاکے کے نشانات میں رہتا ہے وہ
سوچتے سوچتے میں دور نکل آتا ہوں
کیوں کھڑا سوچتا ہر بات میں رہتا ہے وہ
دوجے لوگوں کو سکھاتا ہے کہ کیا بولنا ہے
خود کیوں گم صم سا ملاقات میں رہتا ہے وہ!
مجھ سےکوئی بھی نہیں پوچھتا احمد اس کا
جانتے سب ہیں جوابات میں رہتا ہے وہ
یوں مجسم سا میری ذات میں رہتا ہے وہ
بند آنکھوں سے اسے روز یہاں دیکھتا ہوں
ہاں مرے دل کے مضافات میں رہتا ہے وہ
اس کو بھولا ہوں ؟ تری بات غلط ہے صاحب
میری راتوں کی مناجات میں رہتا ہے وہ
میں نے اک بار بنایا تھا جسے پنسل سے
اسی خاکے کے نشانات میں رہتا ہے وہ
سوچتے سوچتے میں دور نکل آتا ہوں
کیوں کھڑا سوچتا ہر بات میں رہتا ہے وہ
دوجے لوگوں کو سکھاتا ہے کہ کیا بولنا ہے
خود کیوں گم صم سا ملاقات میں رہتا ہے وہ!
مجھ سےکوئی بھی نہیں پوچھتا احمد اس کا
جانتے سب ہیں جوابات میں رہتا ہے وہ