ضیاء حیدری
محفلین
ایک ڈبہ
گھر میں ایک ہنگامہ بپا تھا، اماں ڈھونڈ کر ہلکان ہورہی تھیں، مگر ڈبہ نہیں مل رہا تھا۔ وہ ڈبہ کیا تھا "گھر کا ڈاکٹر" تھا۔ جس میں،ڈپریشن سردرد‘بلڈ پریشر‘ نیند اور وٹامنز کی گولیاں ہروقت موجود ہوتی ہیں۔ اب ایسا ڈبہ ہر گھر کی ضرورت بن گیا ہے۔
میں اگلے برس ستر سال کا جاؤن گا بشرط زندگی، لیکن میں پرانا دور بھولا نہیں ہوں، جب الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی کے بچھائے جاتے تھے کہ ان میں عربی نہیں ہوتی۔
چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سنا سنایا خوف آڑے آجاتا تھا۔ زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ "قیامت والے دن پلکوں سے اُٹھانی" پڑیں گی۔ ۔
امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو’نصر من اللہ وفتح قریب‘پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہوکر آجاتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر’’اوکے‘‘نہیں’’ٹھیک ہے‘‘کہا کرتے تھے۔
موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے، تین دن تک اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، اس ڈر سے کہ اگر اکیلا چھوڑ دیا تو یہ غم میں کچھ کھائے گا نہیں، اور خوشی والے گھرمیں حقیقی قہقہے لگاتے تھے، گلی کے گھر مین مہمان کو کھان کھلایا جاتا تھا اور محلے والے جلدی برتن دھو کراگلے ہلا کے لئے تیار کرتے تھے۔
ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو بھیجتا تھا اور اُدھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی۔
میٹھے کی تین ہی اقسام تھیں۔۔۔ حلوہ، زردہ چاول اور کھیر۔آئس کریم دُکانوں سے نہیں لکڑی کی بنی ریڑھیوں سے ملتی تھی، جو میوزک نہیں بجاتی تھیں۔
ہر محلہ میں کرایہ پر سائیکل کی دکان موجود تھی جہاں کوئی نہ کوئی محلے دار قمیص کا کونا منہ میں دبائے ‘پمپ سے سائیکل میں ہوا بھرتا نظر آتا تھا۔
نیاز بٹتی تھی تو سب سے پہلا حق بچوں کا ہوتا تھا۔ سب گلی کے بچوں کو پہچانتے تھے، اگر کوئی بچہ بھٹک کر کہیں دور نکل جاتا تو اس کا محلہ دار اس کو کنڈھے پر بٹھا کر اس کے گھر چھوڑ آتا تھا، بہت کچھ ہوتا تھا جس سے زندگی سکون سے گذرجاتی تھی، مگر بلڈ پریشر اور ڈیپریشن کی گولیوں کا ڈبہ نہیں ہوتا تھا۔
گھر میں ایک ہنگامہ بپا تھا، اماں ڈھونڈ کر ہلکان ہورہی تھیں، مگر ڈبہ نہیں مل رہا تھا۔ وہ ڈبہ کیا تھا "گھر کا ڈاکٹر" تھا۔ جس میں،ڈپریشن سردرد‘بلڈ پریشر‘ نیند اور وٹامنز کی گولیاں ہروقت موجود ہوتی ہیں۔ اب ایسا ڈبہ ہر گھر کی ضرورت بن گیا ہے۔
میں اگلے برس ستر سال کا جاؤن گا بشرط زندگی، لیکن میں پرانا دور بھولا نہیں ہوں، جب الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی کے بچھائے جاتے تھے کہ ان میں عربی نہیں ہوتی۔
چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سنا سنایا خوف آڑے آجاتا تھا۔ زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ "قیامت والے دن پلکوں سے اُٹھانی" پڑیں گی۔ ۔
امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو’نصر من اللہ وفتح قریب‘پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہوکر آجاتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر’’اوکے‘‘نہیں’’ٹھیک ہے‘‘کہا کرتے تھے۔
موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے، تین دن تک اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، اس ڈر سے کہ اگر اکیلا چھوڑ دیا تو یہ غم میں کچھ کھائے گا نہیں، اور خوشی والے گھرمیں حقیقی قہقہے لگاتے تھے، گلی کے گھر مین مہمان کو کھان کھلایا جاتا تھا اور محلے والے جلدی برتن دھو کراگلے ہلا کے لئے تیار کرتے تھے۔
ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو بھیجتا تھا اور اُدھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی۔
میٹھے کی تین ہی اقسام تھیں۔۔۔ حلوہ، زردہ چاول اور کھیر۔آئس کریم دُکانوں سے نہیں لکڑی کی بنی ریڑھیوں سے ملتی تھی، جو میوزک نہیں بجاتی تھیں۔
ہر محلہ میں کرایہ پر سائیکل کی دکان موجود تھی جہاں کوئی نہ کوئی محلے دار قمیص کا کونا منہ میں دبائے ‘پمپ سے سائیکل میں ہوا بھرتا نظر آتا تھا۔
نیاز بٹتی تھی تو سب سے پہلا حق بچوں کا ہوتا تھا۔ سب گلی کے بچوں کو پہچانتے تھے، اگر کوئی بچہ بھٹک کر کہیں دور نکل جاتا تو اس کا محلہ دار اس کو کنڈھے پر بٹھا کر اس کے گھر چھوڑ آتا تھا، بہت کچھ ہوتا تھا جس سے زندگی سکون سے گذرجاتی تھی، مگر بلڈ پریشر اور ڈیپریشن کی گولیوں کا ڈبہ نہیں ہوتا تھا۔