ایک ڈرون پائلٹ کااعتراف گناہ

عاطف بٹ

محفلین
چھ برس تک معصوم بچوں اور بے گناہ عورتوں کو ڈرون حملوں میں نشانہ بنانے والے امریکی نوجوان کا چشم کشا قصّہ۔۔۔ پچھتاوا اب اسے چین کی نیند نہیں سونے دیتا۔
برینڈن برائنٹ چھ سال تک اس لمبوترے، کھڑکیوں سے محروم اور ٹریلر نما کمرے میں کام کرتا رہا۔ اس میں مسلسل ایئرکنڈیشنر چلتے رہتے تاکہ کمرے میں موجود قیمتی کمپیوٹروں اور آلات سے پیدا ہونے والی حرارت انہیں نقصان نہ پہنچائے۔ سکیورٹی وجوہ کی بنا پر کمرے کے دروازے اسی وقت کھلتے جب برینڈن مع ساتھی داخل ہوتا یا باہر جاتا۔ کمرے میں دونوں چودہ کمپیوٹر مانیٹروں اور چار کی بورڈوں کے سامنے بیٹھتے۔ امریکی ریاست نیو میکسیکو میں بیٹھے بیٹھے برینڈن جب بھی اپنے کی بورڈ کا مخصوص بٹن دباتا تو عراق، افغانستان یا یمن میں کئی انسان موت کے گھاٹ اتر جاتے۔ وہ کمرہ کمپیوٹر چلنے کی آوازوں سے ہمہ وقت گونجتا رہتا۔ یہ دراصل ڈرون کا دماغ تھا جوامریکی عسکری اصلاح میں ’’کاک پٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ لیکن اس کاک پٹ میں بیٹھے پائلٹ فضا میں ڈرون نہیں چلاتے بلکہ جدید ترین مشینوں کی مدد سے محض اسے کنٹرول کرتے ہیں۔ برینڈن بھی ڈرون چلانے والے پائلٹوں میں شامل تھا۔ ایک دن اس کے ساتھ عجیب واقعہ پیش آیا۔ تب وہ مع ساتھی ایک پریڈیٹر (Predator) ڈرون چلا رہا تھا۔ ڈرون دس ہزار کلومیٹر دور افغانستان کی فضا میں محو پرواز تھا۔ تب انہیں مٹی سے بنے ایک گھر پر حملہ کرنے کا اذن ملا۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے، گھر کی چھت پر بھیڑ بکریاں رکھنے کے لیے چھوٹا سا باڑا بنا ہوا تھا۔ حکم ملنے پر برینڈن نے بائیں ہاتھ سے مطلوبہ بٹن دبایا اور چھت کو لیزر سے نشانے پر لے لیا۔ پھر پہلو میں بیٹھے دوسرے پائلٹ نے اپنی جوائے اسٹک پر لگا ٹریگر دبایا تو ڈرون نے ہیل فائٹر نامی میزائل داغ دیا۔ اسے 16 سیکنڈ بعد نشانے پر جا لگنا تھا۔ برینڈن آج کہتا ہے ’’میرے لیے ایسے جان لیوا لمحے ہمیشہ سلوموشن میں گزرتے۔‘‘ ڈرون سے ایک انفراریڈکیمرا نصب تھا۔ کیمرے سے نشر ہوتی ویڈیو فلم براہ مواصلاتی سیارہ اس کے کمپیوٹر مانیٹر تک پہنچ رہی تھی۔ ہزاروں کلومیٹر پہ پھیلے اس پورے عمل کے دوران صرف دو تا پانچ سیکنڈ کا وقفہ ہی آتا۔ میزائل چھوڑے سات سیکنڈ گزر گئے، تب تک چھت پر کوئی نمودار نہ ہوا۔ اس وقت برینڈن چاہتا تو میزائل کا رخ موڑ سکتا تھا۔ پھر مزید تین سیکنڈ گزر گئے۔ اسے یہ انتظار بڑا اذیت ناک محسوس ہو رہا تھا۔ اسی وقت اسے چھت کے کونے سے ایک پانچ چھ سالہ بچہ آتا دکھائی دیا۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ چند ہی لمحوں بعد برینڈن کی ڈیجیٹل دنیا اور مزارشریف کے نزدیک واقع اس گاؤں کی دنیا میں اتصال ہوگیا۔ مانیٹر پر برینڈن کو چمک دکھائی دی اور پھر زبردست دھماکہ ہوتا نظر آیا۔ گھر کا بیشتر حصہ گرگیا۔اٹھنے والے گردوغبار میں بچے کا نام و نشان نظر نہ آیا۔ تبھی اسے رگ وپے میں ضمیر کی چبھن دوڑتی محسوس ہوئی۔ اس نے ساتھی پائلٹ سے پوچھا ’’ کیا ابھی ہم نے ایک بچہ مار ڈالا؟‘‘ وہ بولا ’’ہاں، میرا خیال ہے وہ بچہ تھا۔‘‘ انہوں نے پھر مانیٹر کی چیٹ (گفتگو والی) ونڈو میں لکھا ’’کیا وہ بچہ تھا؟‘‘ تھوڑی دیر بعد کسی اجنبی فوجی افسرنے جواب دیا جو دنیا میں نامعلوم جگہ اپنے کمانڈ سینٹر میں بیٹھا یہ کارروائی دیکھ رہا تھا۔ اس نے جواب دیا ’’نہیں، وہ محض ایک کتا تھا۔‘‘ دونوں پائلٹوں نے ویڈیو فلم دوبارہ چلا کر دیکھی۔۔۔ انہیں احساس ہوا کہ وہ دو ٹانگوں پر چلتا کتا پہلی بار دیکھ رہے ہیں۔
غیرمرئی جنگ
اس دن برینڈن اپنے کمرے میں باہر آیا، تو وہ سرزمین امریکہ پر آ نکلا۔ وہ امریکی فضائیہ کی کینن ایئرفورس بیس ( Cannon Air Force Base) پرکھڑا تھا جو دیہی علاقے میں واقع ہے۔ اس کے چاروں طرف وسیع و عریض گھاس میدان ہیں یا کھیت جو قدرتی حسن کا دلفریب نظارہ دکھاتے ہیں۔ وہاں امن و سکون کابھی دور دورہ تھا اور کسی قسم کی جنگ کا نام و نشان نظر نہ آتا۔ دراصل امریکی عسکری دماغ دور جدید کی جنگ کو خیال کے مانند غیر مرئی بنا چکے۔ ایسی جنگ میں فاصلے کے معنی بھی بدل چکے۔۔۔ اب امریکی محض اپنے وطن ہی نہیں دنیا بھر میں جدید ترین آلات سے لیس ہائی ٹیک مراکزقائم کرکے وہاں بیٹھتے اور جنگی مشینیں چلا کر دور دراز آباد دشمنوں پر حملے کرتے ہیں۔ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ جنگ کایہ نیا طریق کار ماضی کی نسبت زیادہ ’’انسان دوست‘‘ ہے کیونکہ ملک میدان جنگ میں فوجی مروانے سے بچ جاتا ہے۔ اس غیر مرئی جنگ کو ایسے امریکی صدر، بارک اوباما نے پوری شدومد سے پھیلایا جسے دانشور، ادیب اور اہل علم میں سے سمجھا جاتا ہے۔ امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) کے ایک حصے میں ڈرون نظام کے کرتا دھرتا بیٹھتے ہیں۔ اس علاقے کی دیواریں گہری سیاہ لکڑی سے مزین ہیں۔ امریکی فضائیہ کے افسر وہیں دفتر رکھتے ہیں۔ وہاں ایک دیوار پہ فوجی لیڈروں کے ساتھ ساتھ بڑے سے کینوس پر بنی ڈرون (پریڈیٹر) کی تصویر بھی نصب ہے۔ عسکری نقطہ نگاہ سے امریکیوں کا خیال ہے کہ پچھلے چند برس میں ڈرون ہی وہ بہترین ایجاد ہے جس نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں زبردست کامیابیاں امریکی جھولی میں ڈال دیں۔ امریکہ میں سات مقامات پر امریکی فوج ڈرون کنٹرول کرتی ہے۔ مشرقی افریقی ملک، جبوتی سمیت بیرون ممالک میں بھی امریکی فوج کے ڈرون مرکز واقع ہیں۔ جبکہ پاکستان، صومالیہ اور یمن پر یلغار کرنے والے ڈرون امریکہ خفیہ ایجنسی، سی آئی اے اپنے صدر دفتر (لینگلے، ریاست ورجینیا) سے کنٹرول کرتی ہے۔
ہم زندگی بچاتے ہیں
امریکی فضائی فوج کا افسر کرنل ولیم ٹارٹ سمجھتا ہے کہ ڈرون امریکی قوم کے لیے آسمانی تحفہ ہے۔ کرنل ولیم کچھ عرصہ قبل کرسیچ ایئر فورس بیس، ریاست نیودا میں تعینات تھا۔ یہ بیس لاس ویگاس شہر کے نزدیک واقع ہے۔ وہاں وہ ڈرون اڑانے کے منصوبے کا انچارج تھا۔ اب وہ لینگلے میں فضائیہ کی ریموٹلی پائلٹیڈ ایئر کرافٹ ٹاسک فورس (Remotely Piloted Aircraft (RPA) Task Force) کا سربراہ ہے۔ ماضی میں خود بھی ڈرون اڑا چکا ۔ تب وہ کاک پٹ میں مانیٹر کے سامنے اپنے بیوی بچوں کی تصاویر بڑے اہتمام سے رکھتا تھا۔ کرنل کو ڈرون نام پسند نہیں کیونکہ اس سے لگتا ہے، مشین اپنی انا یا مرضی رکھتی ہے، لہٰذا وہ اسے ریموٹلی پائلیٹڈ ایئرکرافٹ کہتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ امریکی عموماً جاسوسی یا نگرانی کرنے کی خاطر ہی ڈرون اڑاتے ہیں۔ مثلاً ہیٹی میں زلزلہ آیا تو ڈرون کی مدد سے کئی پھنسے انسانوں کی جانیں بچائی گئیں۔ پھر جنگی نقطہ نظر سے بھی یہ مشینیں امریکہ کے خوب کام آئیں۔ مثلاً لیبیا میں انہی کی مدد سے قذافی کی جنگی تنصیبات کا سراغ لگایا گیا۔ ایک ڈرون ہی نے صدر قذافی کے فرار ہوتے قافلے کا پتا چلایا۔ اس طرح افغانستان میں پیدل چلتے فوجی قدم قدم پر ڈرون کی معلومات سے مدد لیتے ہیں۔ اسی باعث کرنل ولیم کا دعویٰ ہے ’’ہم (انسانوں کی)جانیں بچاتے ہیں۔‘‘ تاہم کرنل ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کے متعلق کچھ نہیں بتاتا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ دو سال کرسیچ بیس میں ڈرون آپریشنز کا انچارج رہا اور اس دوران کوئی شہری ہلاک نہیں ہوا۔ وہ کہتا ہے کہ ڈرون ٹارگٹ پر اسی وقت حملے کرتے ہیں جب عمارت میں عورتیں اور بچے نہ ہوں۔ جب کرنل سے ’’چین آف کمانڈ‘‘ کے متعلق پوچھا جائے تو وہ دو سو پچھتر صفحات پر مشتمل دستاویز’’3-09-3‘‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس دستاویز کی روسے تمام حملوں کے مانند امریکی فضائیہ کے افسران بالا ہی ڈرون حملے کی منظوری دیتے ہیں۔ دستاویز میں یہ بھی درج ہے کہ جس ملک کے اندر ڈرون حملہ ہو، وہاں کی حکومت سے منظوری لینا بھی ضروری ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ میدان جنگ میں لڑنے والے فوجی فوج کے ان ملازمین کو حقیقی فوجی نہیں سمجھتے جو دفاتر میں بیٹھ کر عسکری امور انجام دیں۔ جیسے کرنل ولیم ٹارٹ کیونکہ وہ نہ تو کبھی کیچڑ میں چلا اور نہ ہی انسانی خون میں لت پت ہوا۔ تاہم کرنل ولیم اس الزام سے بہت چڑتا ہے۔ وہ کہتا ہے ’’ڈرونوں کے ذریعے ہم کئی ہفتے (نشان زدہ) لوگوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ انہیں بچوں کے ساتھ کھیلتے ، بیگم سے باتیں کرتے اور کپڑے دھوتے دیکھتے ہیں۔ ہم پڑوسیوں کے مانند انھیں جاننے لگتے ہیں کہ وہ کیونکر زندگی گزارتے ہیں۔ اور پھر ایک دن وہ ہمارے ہی ہاتھوں مارے جاتے ہیں ۔اس سارے عمل سے گزرنا آسان مرحلہ نہیں۔‘‘ ڈرون کا ایک عجیب و غریب پہلو یہ بھی ہے کہ گو انسان اور نشانے کے مابین فاصلہ بہت بڑھ گیا، لیکن اس نے قربت بھی پیدا کردی۔ کرنل ولیم کے الفاظ میں ’’ڈرون نے جنگ کو ذاتی بنا ڈالا ہے۔‘‘
میں نے خواتین و بچوں کو مرتے دیکھا
ریاست مونٹانا میں واقع چھوٹا سا شہر، میسولا پہاڑوں اور جنگلوں کے دامن میں آباد ہے۔ موسم سرما میں یہ شہر برف سے ڈھک کر بڑا خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔ اب 27 سال برینڈن برائنٹ اسی شہر کا باسی ہے۔ وہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا اور والدین کے ساتھ رہتا ہے۔ چار ماہ قبل وہ امریکی فضائیہ کی ملازمت چھوڑ چکا۔ اب آبائی گھر میں آرام کرتے ہوئے وہ زندگی کے نئے دور سے گزر رہا ہے۔ اپنا سر منڈوا چکا اور چھدری داڑھی رکھتا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے بتاتا ہے ’’چار ماہ ہو چکے، میں نے جوائے اسٹک کو ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘ اس کی آواز سے فتح کا احساس صاف جھلکتا ہے۔ برینڈن چھ سال امریکی فضائیہ سے منسلک رہا۔ اس دوران برینڈن نے چھ ہزار گھنٹوں کا طویل عرصہ ڈرون اڑاتے گزرا۔ وہ بے بسی سے کہتا ہے’’دوران ملازمت میں نے مردو خواتین اور بچوں کو مرتے دیکھا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کئی انسانوں کو قتل کروں گا۔ درحقیقت میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ میں ایک دن قاتل بن جائوں گا۔‘‘ غیرمقبول ملازمت ہائی سکول میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد برینڈن نے کالج کے شعبہ صحافت میں داخلہ لیا۔ اسے تحقیقی رپورٹیں تیارکرنے کا شوق تھا۔ تب وہ ہر اتوار چرچ جاتا، خدا کی عبادت کرتا اور خاصا مذہبی تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ کالج کی لڑکیوں سے دوستیاں رکھنے لگا۔ جب شاہ خرچی نے اسے مقروض کر دیا تبھی وہ رنگ رلیوں سے باز آیا۔ پھر ایک حادثہ اسے فوج میں لے آیا۔ ایک دن وہ دوست کے ساتھ فوج کے مقامی دفتر گیا ۔ وہاں اسے علم ہوا کہ فضائیہ کے کالج میں وہ مفت تعلیم پا سکتا ہے۔ برینڈن ذہین تو تھا، لہٰذا جب ٹیسٹ دیئے تو بہت اچھے نمبر آئے۔ افسران بالا نے اسے باصلاحیت دیکھ کر نہ صرف منتخب کیا بلکہ ڈرون پروگرام کے انٹیلی جنس یونٹ بجھوا دیا۔ وہاں برینڈن نے سیکھا کہ ڈرون کے کیمرے و لیزر کیونکر کنٹرول کیے جائیں اور یہ کہ تصاویر، نقشوں اور موسموں کا ڈیٹا کیسے برتا جائے۔ برینڈن 20 سال کا تھا کہ اس نے ڈرون چلانے کی تربیت مکمل کرلی۔ یوں وہ ڈرون پائلٹ بن گیا۔ اس نے اپنا پہلا مشن انجام دیتے ہوئے عراق میں ڈرون اڑایا۔ تب صحرائے نیودا میں سورج آب و تاب سے چمک رہا تھا اور خاصی گرمی تھی۔ مگر کنٹینر کے اندر ایئر کنڈیشنر چلنے کے باعث ماحول خنک تھا۔ اُدھر عراق میں پو پھٹ رہی تھی۔ تب امریکی فوجیوں کا ایک دستہ گشت کے بعد اپنے کیمپ پلٹ رہا تھا۔ برینڈن کا کام یہ تھا کہ وہ سڑک کی نگرانی کرے۔ گویا اس نے آسمان پر فوجیوں کے ’’نگران فرشتے‘‘ جیسا کردار نبھاتا تھا۔ ڈرون اڑاتے ہوئے اچانک برینڈن کو سڑک میں ’’آنکھ‘‘ نظر آئی۔ دوران تربیت اسے یہ آنکھ شناخت کرنے کی خصوصی مشق کرائی گئی تھی۔دراصل جب عراقی جنگجو کسی سڑک میں گھریلو بم دباتے تو اس کے اوپر ٹائر رکھ کر جلا دیتے۔ یوں کھودا گیا اسفالٹ دوبارہ پگھل جاتا۔ مگر اس عمل سے ایسا نشان وجود میں آتا جو فضا سے آنکھ کی طرح دکھتا۔ برینڈن نے فوراً اپنے افسر کو سڑک میں پوشیدہ بم کے متعلق بتایا۔ اس نے اپنے کمانڈ سینٹر خبردی۔ تب فوجی قافلہ اس بم سے خاصی دور تھا اور اطلاع ملنے پر وہ چوکنا ہو جاتا۔ لیکن ایک مسئلہ آن کھڑا ہوا۔ قافلے کے کمانڈر نے دوران سفر سگنل جام کرنے والا جامر چلوا دیا تاکہ جنگجو باہم پیغام رسانی نہ کرسکیں۔ لیکن یوں امریکہ میں بیٹھے افسروں کے لیے بھی ناممکن ہوگیا کہ وہ قافلے سے رابطہ کرسکیں، لہٰذا وہ منٹوں میں دیسی بم کے قریب پہنچ گیا۔ اُدھر برینڈن اور اس کا ساتھی پائلٹ بے بسی سے اپنے فوجیوں کو آتا دیکھتے اور ہاتھ ملتے رہے۔ پہلی گاڑی تو صحیح سالم دبے بم کے اوپر سے گزر گئی۔ لیکن دوسری گاڑی جیسے ہی آئی، برینڈن نے مانیٹر پر چمک دیکھی اورگاڑی کے اندر دھماکہ ہوگیا۔ اس بم حملے میں پانچ امریکی فوجی مارے گئے۔ یہ پانچ ہم وطن تادیربرینڈن کو خوابوں میں آ کر اسے دق کرتے رہے۔
انسانیت سے کٹ کر رہنا
شروع میں طویل عرصہ برینڈن نے روزانہ بارہ بارہ گھنٹے کام کیا۔ دراصل جب امریکی افغانستان اور پاکستان میں بھی ڈرونیں اڑانے لگے تو افرادی قوت کم پڑ گئی۔ دوسری طرف امریکی افواج میں ڈرون چلانے والوں کو بزدل اور بے وقوف سمجھا جاتا جو صرف بٹن دبانا جانتے تھے۔ حقیقتاً یہ اتنا نفرت انگیز کام تھا کہ ڈرون چلانے کے لیے امریکی فوج کو لوگ ہی نہ ملتے، چنانچہ ریٹائرڈ لوگوں کو بھرتی کرنا پڑا۔ برینڈن کو وہ لمحہ بھی یاد ہے جب اس نے پہلا میزائل داغا۔ اس نے نشانے پر لیے گئے دو انسان فوراً مار ڈالے۔ پھر برینڈن نے دیکھا کہ تیسرا آدمی عالمِ جان کنی میں مبتلا ہے۔ اس کی ایک ٹانگ غائب تھی جبکہ دونوں ہاتھ بھی کٹ چکے تھے۔ بازوؤں کے ٹھنٹھوں سے لہو پانی کے مانند ابل رہا تھا۔ وہ پورے دو منٹ تک ایڑیاں رگڑتا رہا اور پھر ساکت ہوگیا۔ یہ لرزہ خیزمنظر دیکھ کر اسے جھرجھری آ گئی۔ اس دن وہ گاڑی چلا کر گھر گیا تو سارے راستے اسی منظر کے متعلق سوچتا رہا۔ کئی بار اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوئیں۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتایا ہے ’’اس خوفناک واقعے کے بعد ایک ہفتے تک میں نے یہی محسوس کیا کہ میں انسانیت اور اخلاقیات سے دور ہو چکا۔‘‘ شاید اسی لیے آج کل وہ اپنے آبائی قصبے میں زیادہ تر وقت پسندیدہ کافی خانے میں گزارتا ہے۔ وہاں قہوے کی خوشبو سے بسے ماحول میں وہ لوگوں کو دیکھتا، ان کی باتیں سنتا یا مارک ٹوین، نطشے وغیرہ کی کتب پڑھتا ہے۔۔۔ اب وہ طویل عرصے ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ اسے الجھن اور بے چینی ہونے لگتی ہے۔ فوج سے علیحدگی کے بعد اس نے ایک لڑکی سے عشق کیا۔ مگر اس کے نفسیاتی مسائل اور الجھنوں کے سبب وہ برینڈن سے دور ہوگئی۔ رخصت ہوتے ہوئے محبوبہ نے اسے بتایا ’’فوج میں ملازمت نے تم پر بہت بھاری بوجھ رکھ دیا ہے۔ سوری، میں اسے تمہارے ساتھ مل کر نہیں اٹھا سکتی۔‘‘ برینڈن نے یہ سنا تو سرد آہ بھر کر رہ گیا۔ آج وہ گاڑی میں اپنے قصبے کا چکر لگائے، تو اویتار چشمہ لگاتا اور فلسطینی اسکارف پہنتا ہے۔ اپنے فیس بک پیج پر اس نے ان غیر سرکاری تمغوں کی تصاویر لگا رکھی ہیں جو دوران ملازمت عمدہ کارکردگی دکھانے پر اسے ملے۔ انہی تمغوں کے باعث وہ کچھ فخر بھی محسوس کرتا ہے۔
2007ء میں جب برینڈن عراق پہنچا، تو برینڈن نے اپنے فیس بک پیچ میں لکھا ’’ریڈی فار ایکشن (میں لڑنے کے لیے تیار ہوں)۔‘‘ اسے بغداد سے 100 کلومیٹر دور واقع ایک امریکی جنگی بیس بجھوایا گیا۔ وہاں اس کی ذمہ داری ڈرون اڑانا اور بحفاظت اتارنا تھا۔ جوں ہی ڈرون فضا میں مطلوبہ بلندی تک پہنچتی، امریکہ میں بیٹھے پائلٹ اس کا انتظام سنبھال لیتے۔ پریڈیٹر ڈرون سارا دن فضا میں رہ سکتا ہے، مگر وہ خاصا سست رفتار ہے۔ اسی لیے اسے اس علاقے میں رکھا جاتا ہے جہاں ڈرون اڑنا مقصود ہو۔
برینڈن نے کئی بار عسکری لباس میں ملبوس ہو کر ڈرون کے ساتھ تصویریں کھنچوائی۔ 2009ء میں اسے ترقی ملی اور برینڈن اسپیشل یونٹ کا حصہ بن کر کینن ایئرفورس بیس، نیو میکسیکو چلا آیا۔ اسے صحرائی قصبے، کلووس میں رہنے کے لیے ایک بنگلہ ملا۔ بنگلے میں ساتھی پائلٹ بھی مقیم ہوا۔
برینڈن کو پسند تھا کہ رات کی ڈیوٹی کرے کیونکہ تب افغانستان میں صبح نمودار ہو جاتی۔ موسم بہار میں جب افغان سرزمین گل و گزار ہو تی اور برف پوش چوٹیاں سہانا منظر پیش کر کرتی، تو اسے دیکھ کر اس کو اپنا آبائی قصبہ یاد آ جاتا۔ وہ دیکھتا کہ افغان کھیتوں میں کام کر رہے ہیں۔ لڑکے بالے فٹبال یا کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہیں اور والدین اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوشیاں مناتے ہیں۔ جب مجبوراً اسے دن میں کام کرنا پڑتا تو وہ اپنا انفراریڈ کیمرہ چلا دیتا۔ تب چھتوں پر سوئے یا بیٹھے لوگ اسے نظر آتے۔ آج بھی افغانستان میں رواج ہے کہ لوگ گرمیوں میں وقت چھتوں پہ گذارتے ہیں۔ برینڈن طالبان یا ان لوگوں کی ہفتوں نگرانی کرتا جن پر خفیہ ایجنسیوں کو شک ہوتا۔ بعض اوقات وہ لوگوں کو اسلحہ چھپاتے دیکھتا۔ اس نگرانی کا یہ نتیجہ نکلتا کہ وہ ان کا سنگی ساتھی بن جاتا اور لوگوں کے متعلق بہت کچھ جان لیتا۔آخر ایک دن حکم ملتا کہ فلاں شخص یا لوگوں کو اڑا دیا جائے۔ تب وہ احساسِ گناہ محسوس کرتا کیونکہ اسے علم تھا ، وہ بچوں سے ان کے شفیق باپ چھین رہا ہے۔ برینڈن اعتراف کرتا ہے’’میں نے جن افغانوں کی نگرانی کی، وہ سبھی اچھے ڈیڈی تھے۔‘‘ وہ فارغ اوقات میں ویڈیو گیمز کھیلتا۔ انٹرنیٹ پر ورلڈ آف وار کرافٹ نامی کھیل اس کی پسندیدہ ویڈیو گیم تھی۔ کبھی وہ ساتھیوں کے ساتھ کلب چلا جاتا۔ لیکن آج وہ ٹی وی نہیں دیکھ سکتا، اسے کوئی لطف نہیں آتا بلکہ گھبراہٹ محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح وہ سوتے وقت بھی بے چین رہتا ہے۔ برینڈن کو گہری نیند بمشکل آتی ہے۔
جذبات کے واسطے کوئی وقت نہیں
امریکی فضائیہ ریاست نیو میکسیکو ہی میں ہولمین ایئرفورس بیس بھی رکھتی ہے۔ وہاں ایک 34 سالہ خاتون، میجر ونیزہ میئر مستقبل کے ڈرون پائلٹوں کو تربیت دیتی اور مشقیں کراتی ہے۔ دراصل امریکی حکومت چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ڈرون پائلٹ تیار کیے جائیں تاکہ وہ بڑھتی ضرورت پوری کرسکیں۔ ڈرون پائلٹ بننے سے قبل ونیزہ مال بردار ہوائی جہاز اڑاتی تھی۔ آج وہ امریکی فضائیہ کی وردی پہنے ایک نوآموز کو افغانستان میں ڈرون اڑانا سکھا رہی ہے۔ انتہائی بلندی پر پرواز کرتا ہوا ڈرون چپکے چپکے ایک سفید کار کا پیچھا کررہا تھا۔ آخر کار مٹی سے بنے چند گھروں کے پاس رک گئی۔ وہ جوائے سٹک کے ذریعے ڈرون کی سمت تبدیل کرتی۔ جبکہ بائیں ہاتھ وہ لیور نصب تھا جس سے ڈرون کی رفتار کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ دوران تربیت وہ نوآموزوں کو پریڈیٹر اور اس کا بڑا بھائی ریپر بھی دکھاتی ہے۔ یہ دونوں ڈرون کنٹینر کے باہر فضائی اڈے پر استادہ ہوتے ہیں۔ ریپر میں چار میزائلوں کے علاوہ ایک بم بھی لگ سکتا ہے۔ میجر ونیزہ فخر سے کہتی ہے ’’یہ ہمارے عظیم دیوہیکل پرندے ہیں ۔ بس خراب موسم میں صحیح طرح کام نہیں کر پاتے۔‘‘ تربیت کار بننے سے قبل ونیزہ نے دو سال ڈرون بھی اڑائے ۔اسے اپنا کام اتنا پسند ہے کہ اس موضوع پر ایک کتاب ’’پریڈیٹر‘‘ بھی لکھ ڈالی۔ کہتی ہے کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں (نعوذ باللہ) خدا ہوں جو دور دراز علاقے میں آسمانی بجلی کڑکا رہا ہے۔ اپنے کام سے ونیزہ کی الفت کا اندازہ یوں لگائیے کہ اس کا پہلا بچہ کاک پٹ میں پیدا ہوا۔ موصوفہ خاصی بے حس بھی ہے۔ کہتی ہے ’’جب میں حملے کے لیے تیار ہوجائوں تو جذبات کے متعلق سوچنے کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔ بس میرے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے اور میں زبردست جوش و جذبہ محسوس کرتی ہوں۔‘‘ ونیزہ کا کہنا ہے کہ وہ جسے ٹارگٹ کرے، امریکہ کا دشمن ہوتا ہے، لہٰذا وہ کوئی بھی ہو (بچہ یا عورت)، اسے مارتے ہوئے ونیزہ کسی قسم کا پچھتاوا یا احساس گناہ محسوس نہیں کرتی۔ گھر کی مختلف زندگی کام نمٹانے کے بعد ونیزہ گھر کا رخ کرتی ہے۔ وہ لاس ویگاس میں رہتی اور شاہراہ 85 پر سفر کرتی گھر پہنچتی ہے۔ راہ میں گانے سنتی اور ان امن پسندوں کی طرف تکتی بھی نہیں جو ڈرون حملوں کے خلاف اکثر احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں ۔تب وہ ڈرون حملوںمیں مرنے والے انسانوں کے بارے میں قطعاً نہیں سوچتی، البتہ اسے یہ خیال ضرور آتا ہے کہ کن طریقوں سے اپنی کارکردگی بہتر کی جائے۔ وہ گھر میں اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے متعلق کوئی بات نہیں کرتی۔ وہاں دنیا بھر کی تمام برائیوں کا ذکر ممنوع ہے۔ حالانکہ ونیزہ کا شوہر بھی ڈرون پائلٹ ہے۔ وہ کپڑے تبدیل کرتی، بچوں کے ساتھ کھانا کھاتی اور پھر انہی کی معیت میں کارٹون دیکھتی ہے۔ ونیزہ اپنے بچوں کو دکھانا چاہتی ہے کہ ان کی ماں دنیا کا ہر کام کر سکتی ہے۔ اسے افغان عورتیں سخت ناپسند ہیں جو بقول اس کے مردوں کی غلام اور سرتاپا برقع سے ڈھکی رہتی ہے۔ موصوفہ کی سب سے بڑی تمنا میدان جنگ پہنچ کر دشمن سے دودو ہاتھ کرنا ہے۔
میں نارمل زندگی کی طرف نہیں پلٹ سکتا
انسان کا قتل عام کرتے کرتے آخر برینڈن کا جی اوبھ گیا ۔اب وہ اپنی ملازمت چھوڑ کر کوئی نیا کام کرنا چاہتا تھا لیکن افسران بالا نے اسے جانے نہ دیا کیونکہ وہ بہترین ڈرون پائلٹ تھا۔ تاہم ماحول تبدیل کرنے کی خاطر وہ افغانستان چلا گیا۔ تین ماہ بعد واپس آیا اور کاک پٹ میں بیٹھا تو پھر ضمیر اسے لعنت ملامت کرنے لگا۔ اب اسے کاک پٹ سے نفرت ہوگئی۔ ماحول تروتازہ کرنے کی خاطر وہ کنٹینر میں ایئر فریشنر چھڑکنے لگا مگر بدبو نہ گئی کیونکہ وہ تو سڑتے قلب و ضمیر سے اٹھ رہی تھی۔ انہی دنوں برینڈن کو یہ خیال بار بار آنے لگا کہ اسے ایسا کام کرنا چاہیے جو انسانوں کی جانیں نہ لے بلکہ ان کی جان بچائے۔ وہ مختلف ورزشوں کا ماہر تھا، لہٰذا اس نے سوچا کہ وہ مردوزن کو ورزشیں سکھانے والا ایک کلب کھول لے اور یوں انہیں صحت مند بنائے۔ تاہم دوستوں نے اسے ملازمت چھوڑنے سے باز رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنی پُرکشش اور ہزاروں ڈالر والی نوکری چھوڑ کر وہ خوار ہوگا۔ بہرحال احساس گناہ سے بچنے کی خاطر برینڈن نے گھر میں ورزشوں کا پروگرام شروع کر دیا۔ یوں وہ ہمہ وقت خود کو مصروف رکھتا۔ یہ فوجیوں جیسا کڑا ورزشی پروگرام تھااور اسے انجام دیتے ہوئے وہ وزن بھی اٹھاتا۔ آخری دنوں میں وہ اپنے خیالات ایک ڈائری میں اتارنے لگا۔ ایک دفعہ کاک پٹ میں گزرے وقت سے متعلق برینڈن نے لکھا ’’میدان جنگ میں کوئی غلط یا صحیح نہیں ہوتا بلکہ وہاں صرف انسانی لہو بہتا ہے اور مکمل جنگ ہوتی ہے۔ نظریں وہاں ہر قسم کا خوفناک اور رونگٹے کھڑے کردینے والا منظر دیکھتی ہیں۔ تمنا ہے، کاش میری آنکھیں سڑ کر معدوم ہوجائیں۔‘‘ جب احساس جرم شدید ہوا تو برینڈن اپنے دوستوں سے کترانے لگا۔ دشمن کے خلاف باتیں سن سن کر اسے کراہت ہوتی ۔ کبھی کبھی وہ معمولی بات پر غصے میں آجاتا۔ یوں وہ پہلے کی طرح معمول کے مانند زندگی گزارتے ہوئے دشواری محسوس کرنے لگا۔ ایک دن وہ کاک پٹ میں بیٹھا ڈرون چلا رہا تھا کہ خون تھوکنے لگا اور جلدہی بے ہوش ہوگیا۔ طبی معائنے سے انکشاف ہوا کہ وہ اندرونی حرارت کا شکار ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر نے اسے حکم دیا کہ جب تک وہ ہررات چار گھنٹے سونے لگے، تبھی کام پر جائے۔ چونکہ امریکی فضائیہ برینڈن کی خدمات سے بہت خوش تھی، لہٰذا اسے چھ ماہ کی طویل رخصت مل گئی۔ چھ ماہ بعد برینڈن دوبارہ کاک پٹ پہنچ گیا مگر وہ اس حبس زدہ کنٹینر میں ایک دن بھی نہ گزار سکا۔ آخر اس نے اپنی راہ الگ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ دوسرے دن اس نے کاک پٹ میں اپنے ساتھی کے سامنے جی بھر کے دل کی بھڑاس نکالی اور باہر آ گیا۔ یہ ڈرون کی معیت میں اس کا آخری دن تھا۔
اب برینڈن نئی ملازمت کی تلاش میں ہے۔ اس کے پاس اکثر رقم نہیں ہوتی اور وہ والدین سے ادھار لیتا ہے۔ تاہم اس کا دل مطمئن ہے اور اب وہ اپنے کاندھوں میں کسی قسم کا جذباتی و نفسیاتی دباؤ محسوس نہیں کرتا۔ فارغ وقت تصویریں بناتے ہوئے بھی گزارتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس نے اپنی تخلیق کردہ ایک تصویر فیس بک پہ لگائی۔ تصویر میں ایک جوڑا وسیع و عریض سرسبز میدان میں ہاتھوں میں ہاتھ دیئے استادہ ہے۔ وہ آسمان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ان کے نزدیک ہی زمین پر ایک بچہ اپنے کتے کے ساتھ بیٹھا ہے۔ وہ بھی آسمان کی طرف تک رہے ہیں۔ مگر یہ میدان محض دنیا کا حصہ ہے ،اس کے نیچے دور دور تک مردہ فوجیوں اور شہریوں کی لاشوں کا لہو رنگ سمندر پھیلا ہوا ہے ۔زخمی ہاتھ اٹھائے امن، رحم اور محبت کی دہائی دے رہے ہیں۔ امریکی جرنیلوں کو امید تھی کہ عراق اور افغانستان میں جنگیں بڑے اطمینان و سکون سے انجام پائیں گی لیکن ان جنگوں نے ہزار ہا امریکی فوجیوں کے بدن ہی نہیں ذہنوں پر بھی گہرے جذبائی چرکے لگائے جو اب تک مندمل نہیں ہوسکے۔گو ضمیر کی چبھن سے وہ امریکی جرنیل مستثنیٰ ہیں جو مسلم بچوں کو کتا سمجھتے ہیں،مگربرینڈن کو آج بھی اکثر خوابوں میں وہ معصوم افغان بچہ دکھائی دیتا ہے جو میزائل کے عین نشانے پر آ کر گم ہو گیا۔۔۔ دوبارہ کبھی نہ نظر آنے کے لیے۔
ربط
 
اُسی امریکا کے لئے ہمدردیاں جیتنے کی ایک کوشش؟ کہ جی امریکی بہت اچھے ہیں، امریکا اچھا نہیں ہے!۔
اے کاش! ہم مانگے کی عینک سے دیکھنے کی بجائے اپنی حقیقی آنکھوں سے دیکھنے کا رویہ اپنا سکیں۔
 

ساجد

محفلین
چھ برس تک معصوم بچوں اور بے گناہ عورتوں کو ڈرون حملوں میں نشانہ بنانے والے امریکی نوجوان کا چشم کشا قصّہ۔۔۔ پچھتاوا اب اسے چین کی نیند نہیں سونے دیتا۔
۔۔۔۔۔ آج بھی اکثر خوابوں میں وہ معصوم افغان بچہ دکھائی دیتا ہے جو میزائل کے عین نشانے پر آ کر گم ہو گیا۔۔۔ دوبارہ کبھی نہ نظر آنے کے لیے۔
ربط
عاطف بھائی ، بہت معلوماتی تحریر ہے۔
جب یہ آرٹیکل میں نے روزنامہ دنیا کے میگزین میں پڑھا تو ارادہ کیا تھا اسے یہاں شریک کروں گا لیکن آپ نے پہلے ہی چھکا مار دیا۔ اس بارے میں اگر کوئی مزید معلومات ہیں تو وہ بھی عوام کے سامنے لائیں تا کہ انسانی حقوق کے چمپئنز کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آ سکے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
معلوماتی، کیونکہ ڈرون پروگرام تو براہ راست سی آئی اے کے تحت ہے نہ کہ امریکی فوج کے۔ تاہم ہو سکتا ہے کہ میری معلومات غلط ہوں :)
ترجمہ بہت سلیس ہے جس کی وجہ سے زیادہ اچھا لگتا ہے
متن کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا کہ جب آپ حالت جنگ میں ہوتے ہیں تو بہت کچھ سہنا اور بھگتنا پڑتا ہے۔ یہی مثال لے لیں کہ دو تین سال قبل یہاں فن لینڈ میں میرے ساتھ والے قصبے میں دو تین چھوٹے بچے کھیلتے کھیلتے ٹرین کی پٹڑی پر نکل آئے۔ ٹرین ڈرائیور نے جب انہیں دیکھا تو ٹرین اتنی قریب پہنچ چکی تھی کہ بریک نہیں لگنی تھی۔ اس نے بریک لگائی لیکن بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی گاڑی کے نیچے آن کر مرتے دیکھا جو دو دو فٹ کے فاصلے پر تھے اور یکے بعد دیگرے مرتے گئے۔ ہماری زندگی اسی حد تک ہمارے کنٹرول میں ہے بس۔ باقی جنگ جہاں ہوگی وہاں سے انسانیت اٹھ جاتی ہے۔ وہاں صرف مقاصد ہوتے ہیں، یس سر ہوتا ہے اور بس
 

ساجد

محفلین
معلوماتی، کیونکہ ڈرون پروگرام تو براہ راست سی آئی اے کے تحت ہے نہ کہ امریکی فوج کے۔ تاہم ہو سکتا ہے کہ میری معلومات غلط ہوں :)
ترجمہ بہت سلیس ہے جس کی وجہ سے زیادہ اچھا لگتا ہے
متن کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا کہ جب آپ حالت جنگ میں ہوتے ہیں تو بہت کچھ سہنا اور بھگتنا پڑتا ہے۔ یہی مثال لے لیں کہ دو تین سال قبل یہاں فن لینڈ میں میرے ساتھ والے قصبے میں دو تین چھوٹے بچے کھیلتے کھیلتے ٹرین کی پٹڑی پر نکل آئے۔ ٹرین ڈرائیور نے جب انہیں دیکھا تو ٹرین اتنی قریب پہنچ چکی تھی کہ بریک نہیں لگنی تھی۔ اس نے بریک لگائی لیکن بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی گاڑی کے نیچے آن کر مرتے دیکھا جو دو دو فٹ کے فاصلے پر تھے اور یکے بعد دیگرے مرتے گئے۔ ہماری زندگی اسی حد تک ہمارے کنٹرول میں ہے بس۔ باقی جنگ جہاں ہوگی وہاں سے انسانیت اٹھ جاتی ہے۔ وہاں صرف مقاصد ہوتے ہیں، یس سر ہوتا ہے اور بس
قیصرانی بھائی ، امریکہ پر کسی نے جنگ مسلط نہیں کی اور نہ وہ حالتِ جنگ میں ہے بلکہ وہ بد معاشی کرنے یہاں آیا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی ، امریکہ پر کسی نے جنگ مسلط نہیں کی اور نہ وہ حالتِ جنگ میں ہے بلکہ وہ بد معاشی کرنے یہاں آیا ہے۔
ساجد بھائی، میں نے امریکہ کی نہیں جنرل بات کی ہے کہ جنگ جب اور جہاں بھی ہوتی ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اپنے مقاصد ہی حاصل کرنے ہیں۔ چاہے وہ جس قیمت پر ہوں
 

عسکری

معطل
جنگ میں اور کیا مٹھائی بٹتی ہے؟ میں تو نیوکلئیر بم بھی چلا نا پڑا تو بھی احساس جرم ایک طرف رکھ کر چابیاں لگا کر کوڈ ملا کر بٹن دبا دوں گا :bighug:
 

عسکری

معطل
متفق۔ ڈیوٹی از ڈیوٹی
یہ اصل میں مسئلہ ہے سائکاٹرسٹ کا اس نے ایسے آدمی پاس کیے ۔ لڑائی ایک بے رحم کام ہے اور جنگ بڑی لڑائی ہے ۔ دنیا کا ہر انسان کسی ماں کا پیارا کسی کا بھائی کسی باپ کی نسل کسی کا دوست ہوتا ہے اب اس طرح دیکھا جائے تو جنگ کرو ہی نا یا پھر یونیفارم نا پہنو پہلے دن سے اس کیموفلاج کو تو کفن کہہ کر پہنایا جاتا ہے پھر کیسی چوں چراں ؟ انسانیت اور ائیر کامبٹ کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں مینڈ ہو یا ان مینڈ گرانا تو بم ہی ہے نا ۔ہاں ڈرون والے سرویلنس کر کے کچھ جذباتی ہو رہے ہیں ۔ تو بھائیوں اپنا براق بھی آیا آیا تو کیا پاکستانی ڈرون آپریٹر سے بھی ایسی توقع رکھیں گے جب وہ آن ڈیوٹی ہو گا؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
جنگی جرائم اور ٹرین حادثہ میں اگرچہ زمین و آسمان کا فرق ہے مگر پھر بھی لوگ اسے لطیف جانکر قیاس مع الفارق کی ببنیاد پر بنائے استدلال رکھ رہے ہیںایں چہ بوالعجبی است ؟؟؟
نہ جانے یہ کیونکر ہے اور کس خواہش کی تکمیل ہے یا پھر اپنی رائے کو مستدل بنانے کا کیا انوکھا طریق ہے
لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔۔۔ والسلام
 
Top