محمد اظہر نذیر
محفلین
ستم کو دیکھ کے جو چھپ گئے ہو، چپ رہے ہو تم
سنو یہ بزدلی ہے جس طرح سے سہہ رہے ہو تم
ہزاروں مان لو کے ہیں نجس، پر یہ سمندر ہے
کروڑوں ہو کے بھی تو، گندگی میں بہہ رہے ہو تم
ہوا کے راستوں کو کھوجنا مشکل نہیں اتنا
سڑی بدبو کو سہتے ہو، بری بس، کہہ رہے ہو تم
یہاں پر گھپ اندھیرا کیوں، کوئی تارہ نہیں دکھتا
افق کی کہکشاؤں کا، چمکتا مہہ رہے ہو تم
یہی ہو گا اگر تم اپنی قسمت خود نہ بدلو گے
بنو انساں ، کہ مینڈک ہو، کنویں میں رہ رہے ہو تم
زمیں کی طاقتیں دشمن بنی ہیں، دیکھ لے اظہر
اسی دنیا کی پھیلی وسعتوں کے شہہ رہے ہو تم
سنو یہ بزدلی ہے جس طرح سے سہہ رہے ہو تم
ہزاروں مان لو کے ہیں نجس، پر یہ سمندر ہے
کروڑوں ہو کے بھی تو، گندگی میں بہہ رہے ہو تم
ہوا کے راستوں کو کھوجنا مشکل نہیں اتنا
سڑی بدبو کو سہتے ہو، بری بس، کہہ رہے ہو تم
یہاں پر گھپ اندھیرا کیوں، کوئی تارہ نہیں دکھتا
افق کی کہکشاؤں کا، چمکتا مہہ رہے ہو تم
یہی ہو گا اگر تم اپنی قسمت خود نہ بدلو گے
بنو انساں ، کہ مینڈک ہو، کنویں میں رہ رہے ہو تم
زمیں کی طاقتیں دشمن بنی ہیں، دیکھ لے اظہر
اسی دنیا کی پھیلی وسعتوں کے شہہ رہے ہو تم
اساتذہ کرام،
کبھی کبھی نظم لکھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر غزل کی صورت اختیار کر لیتی ہے، کیا اس حالت میں اسے اک نام دے کے نظم کہا جا سکتا ہے؟
دعا گو
اظہر