محمد اظہر نذیر
محفلین
صبح امید کی لو کاش در آئی ہوتی
قلب مغموم، بجھی آس بندھائی ہوتی
کج ادائی جو تری ہوتی کسی ایک طرف
ایک جانب یہ مری آبلہ پائی ہوتی
زور چلتا جو مرا، عشق میں کرتا نہ کبھی
اور چابی بھی ہواوں کی بنائی ہوتی
غم نہیں تشنہ رہے لب کہ تھا قسمت میں لکھا
پیاس جی بھر کے نگاہوں نے بُجھائی ہوتی
مصلحت جان کے اظہر میں تو خاموش رہا
آس ہوتی جو ذرا، بات بنائی ہوتی
قلب مغموم، بجھی آس بندھائی ہوتی
کج ادائی جو تری ہوتی کسی ایک طرف
ایک جانب یہ مری آبلہ پائی ہوتی
زور چلتا جو مرا، عشق میں کرتا نہ کبھی
اور چابی بھی ہواوں کی بنائی ہوتی
غم نہیں تشنہ رہے لب کہ تھا قسمت میں لکھا
پیاس جی بھر کے نگاہوں نے بُجھائی ہوتی
مصلحت جان کے اظہر میں تو خاموش رہا
آس ہوتی جو ذرا، بات بنائی ہوتی