محمد اظہر نذیر
محفلین
زمانے بھر میں رسوائی ہوئی ہے
خبر کچھ دیر سے آئی ہوئی ہے
تمہارے اور میرے درمیاں تھی
کہو دشمن نے پھیلائی ہوئی ہے
تصور میں نہیں تھی بے وفائی
مری تو گُنگ گویائی ہوئی ہے
خفا بھی تُم ، خطا بھی ہے تمہاری
پریشاں سی شکیبائی ہوئی ہے
مسیحا تھے تو گھاو کیوں لگائے
کہاں کی یہ مسیحائی ہوئی ہے
چلو اس دوستی نے کچھ دیا تو
دکھوں سے بھی شناسائی ہوءی ہے
کہو ہو بوجھ ہے اظہر تعلق
مگر زنجیر پہنائی ہوئی ہے
خبر کچھ دیر سے آئی ہوئی ہے
تمہارے اور میرے درمیاں تھی
کہو دشمن نے پھیلائی ہوئی ہے
تصور میں نہیں تھی بے وفائی
مری تو گُنگ گویائی ہوئی ہے
خفا بھی تُم ، خطا بھی ہے تمہاری
پریشاں سی شکیبائی ہوئی ہے
مسیحا تھے تو گھاو کیوں لگائے
کہاں کی یہ مسیحائی ہوئی ہے
چلو اس دوستی نے کچھ دیا تو
دکھوں سے بھی شناسائی ہوءی ہے
کہو ہو بوجھ ہے اظہر تعلق
مگر زنجیر پہنائی ہوئی ہے