ایک کاوش اصلاح کے لیے،ٰٰ کاش احساس کا احساس فنا ہو جائے ٰٰ


کاش احساس کا احساس فنا ہو جائے
میری الفت تری چاہت سے رہا ہو جائے

کیوں عبادت نے کیا آج تلک کچھ نہ اثر؟
کیسے راضی مرا ناراض خدا ہو جائے

کیا کروں قید میں ایسا کہ رہائی ہو نصیب
جتنی باقی ہے مری معاف سزا ہو جائے

کیا مزا ہے کہ مسیحا نا مریضوں سے ملے
ید بیضا بھی نہ ہو اور شفا ہو جائے

خضر آئیں جو پکاروں میں کبھی مشکل میں
ایسے صحرا میں مدد گار صدا ہو جائے

میں تو اظہر جی طلب گار رہوں آخر کا
کیا کروں تاج کا، دنیا میں عطا ہو جائے
 

الف عین

لائبریرین
کاش احساس کا احساس فنا ہو جائے
میری الفت تری چاہت سے رہا ہو جائے
// مبہم شعر ہے، مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کے علاوہ ’رہا‘ لفظ محلِ نظر ہے۔ اسے عموماً جیل یا کسی مصیبت سے نجات پانے کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے، لیکن یہاں ایسا منفی محسوس نہیں ہوتا۔

کیوں عبادت نے کیا آج تلک کچھ نہ اثر؟
کیسے راضی مرا ناراض خدا ہو جائے
//درست، ویسے زیادہ بہتر اور رواں ہو سکتا ہے۔ خاص کر پہلا مصرع جس میں ’تلک‘ لفظ سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔مثلاً
آج تک کیوں نہ کیا میری عبادت/ دعاؤں نے اثر

کیا کروں قید میں ایسا کہ رہائی ہو نصیب
جتنی باقی ہے مری معاف سزا ہو جائے
//’معاف’ کا تلفظ در اصل مُ عا ف ، فعو ہوتا ہے، یہاں فعل کے طور پر ہوا ہے جو غلط ہے۔ اس زمین میں مُعاف لفظ کا آنا مشکل ہے۔ کچھ دوسرا متبادل سوچو۔

کیا مزا ہے کہ مسیحا نا مریضوں سے ملے
ید بیضا بیا نہ ہو اور شفا ہو جائے
// شعر سمجھ میں نہیں آیا۔ ’مسیحانہ‘ کیا ایک ہی لفظ ہے، بمعنی مسیحا کی طرح؟ یا ’مسیحا۔۔ نہ‘ دو الفاظ ہیںَ تم نے بیچ میں سپیس بھی دی ہے۔ اور اسے ’مسیحا نا‘ لکھا ہے۔ ایسا ہو تو اس کی بھی رواں سورت سوچی جا سکتی ہے جس سے کچھ کنفیوژن نہ ہو۔
مثلاً
کیا مزا ہو کہ مریضوں سے مسیحا نہ ملے
اس سے بھی بہتر یوں ہو تو۔۔
نہ مسیحا ہی مریضوں سے ملاقات کرے
ید بیضا بھی نہ ہو، اور شفا ہو جائے۔
پہلے مصرعے کی اور بھی متبادل صورتیں ممکن ہیں۔

خضر آئیں جو پکاروں میں کبھی مشکل میں
ایسے صحرا میں مدد گار صدا ہو جائے
//‘مددگار صدا‘ بات سمجھ میں نہیں آئی، پہلے مصرع میں کیا کہنا چاہ رہے ہو؟ جس طرح میں سمجھ سکا ہوں کہ تمہارا منشا یہ ہے کہ جب میں صحرا میں پکاروں تو خضر مدد کے لئے آ جائیں، اور اس طرح میری صدا مدد گار ہو جائے؟؟؟
لیکن خضر آئیں میں یہ واضح نہیں ہوتا، ’خضر آ جائیں‘ میں ہوتا ہے۔
خضر آ جائیں پکاروں جو کبھی مشکل میں
یا
میں پکاروں کبھی مشکل میں تو خضر آ جائیں
دوسرے مصرع میں ’ایسے‘ یہ معنی نہیں دیتا، اور نہ ’مدد گار‘ اگر یوں کیا جائے
کامراں دشت میں یوں میری صدا ہو جائے


میں تو اظہر جی طلب گار رہوں آخر کا
کیا کروں تاج کا، دنیا میں عطا ہو جائے
//یہاں بھی ’آخر‘ سے ’آخرت‘ کا واضح مطلب نہیں نکلتا، جیسا میں سمجھا ہوں، اور ’جی‘ بھی زائد ہی ہے۔
آخرت کا ہوں میں طالب، میں کروں کیا اظہر
تاج اور تخت جو دنیا میں عطا ہو جائے
 
کاش احساس کا احساس فنا ہو جائے
میری الفت تری چاہت سے سوا ہو جائے

آج تک کیوں نہ کیا میری عبادت نے اثر؟
کیسے راضی مرا ناراض خدا ہو جائے

کیا کروں قید میں ایسا کہ رہائی ہو نصیب
جتنی باقی ہے عفو یار سزا ہو جائے

کیا ہی اچھا ہو مسیحا نہ مریضوں سے ملے
ید بیضا بھی نہ ہو اور شفا ہو جائے

خضر آئیں جو پکاروں میں کبھی دشت میں بھی
کامیابی ہو، مدد گار صدا ہو جائے

آخرت کا ہوں میں طالب، میں کروں کیا اظہر
تاج اور تخت جو دنیا میں عطا ہو جائے
محترم اُستاد،
پہلے شعر میں مقصود ہے کہ وہ حس ختم ہو جائے، جس سے احساس ہوتا ہے، تاکہ محبوب کی محبت کی طلب اور چاہت میری محبت اور چاہت سے الگ ہو جائے، باقی اشعار بھی تبدیل کیے ہیں گو کہ آپ کی تجاویز بلا شک بہت بہتر ہیں، اگر ناپسند ہوئے تو آپ کی اصلاح کردہ تبدیلیاں نافز کر دی جائیں گی، صرف اپنے علم میں اضافے کے لیے کچھ تبدیلیاں کی ہیں
خاکسار
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
کیا کروں قید میں ایسا کہ رہائی ہو نصیب
جتنی باقی ہے عفو یار سزا ہو جائے
میں بھی عفو کا غلط تلفظ بندھ رہا ہے، درست تلفظ میں واؤ ساکن ہے، فعل کے وزن پر عفو۔ اسے مزید تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
 
Top