ایک کاوش برائے اصلاح،'' سائباں تھے تو مرے سر پہ دکھائی دیتے''

سائباں تھے تو مرے سر پہ دکھائی دیتے​
دھوپ سے چھاوں تلک مجھ کو رسائی دیتے​
درد ایسا بھی نہیں تھا کہ نہ ہوتا ذائل​
درد کا پوچھ ہی لیتے نہ دوائی دیتے​
آبلے وصل کی راہوں کے مزہ دیتے ہیں​
تب بھی کیا تھا جو مجھے آبلہ پاٗی دیتے​
میں نے مانگی بھی نہیں اور نہ چاہت تھی کبھی​
قید رکھتے تو ہی خوش تھا، نہ رہائی دیتے​
وصل کی شب کے ستارے بھی ابھی ماند نہ تھے​
صبح کاذب کے طلوع بعد جداٗی دیتے​
کیوں تجھے جاتے ہوٗے روک نہ پاٗے اظہر​
شور کرتے تو سہی، کچھ تو دہاٗی دیتے​
 

عین عین

لائبریرین
اچھی کاوش ہے نذیر۔ وقت کم ہے اس لیے اپنی ناقص رائے نہیں دے رہا۔، بعد میں ایک طالب علم کی حیثیت سے دیکھوں گا تاکہ تمھاری اس کوشش سے سیکھنے کو ملے ۔
 

الف عین

لائبریرین
صبح کاذب کے طلوع بعد جداٗی دیتے
بحر سے خارج ہے، وجہ ’طلوع‘ کا تلفظ ہے۔ یہ فعول کے وزن پر ہے، اور ع با قاعدہ تقطیع میں آتا ہے۔ باقی بعد میں دیکھتا ہوں۔
 
سائباں تھے تو مرے سر پہ دکھائی دیتے​
دھوپ سے چھاوں تلک مجھ کو رسائی دیتے​
درد ایسا بھی نہیں تھا کہ نہ ہوتا ذائل​
درد کا پوچھ ہی لیتے نہ دوائی دیتے​
آبلے وصل کی راہوں کے مزہ دیتے ہیں​
تب بھی کیا تھا جو مجھے آبلہ پاٗی دیتے​
میں نے مانگی بھی نہیں اور نہ چاہت تھی کبھی​
قید رکھتے تو ہی خوش تھا، نہ رہائی دیتے​
وصل کی شب کے ستارے بھی ابھی ماند نہ تھے​
صبح کاذب کے چلو بعد جداٗی دیتے​
کیوں تجھے جاتے ہوٗے روک نہ پاٗے اظہر​
شور کرتے تو سہی، کچھ تو دہاٗی دیتے​
 

مغزل

محفلین
اچھی کاوش ہے میاں سلامت رہو۔۔ ہم بھی بابا جانی کا انتظار کرتے ہیں ۔۔۔ بہت سلامت رہو۔
 
کچھ بہتری کی کوش کی ہے
سائباں تھے تو مرے سر پہ دکھائی دیتے
دھوپ سے چھاوں تلک مجھ کو رسائی دیتے

میرے کس کام کی ہوتی یہ خداٗی مل کر
میں تو اُس در کا گدا، مجھکو گداٗی دیتے

پھول بھی زہر لگے ہجر میں، ہم سہ لیتے
رغبت وصل میں جو آبلہ پائی دیتے

میں نے مانگی بھی نہیں اور نہ چاہت تھی کبھی
قید رکھتے تو ہی خوش تھا، نہ رہاٗی دیتے

وصل کی شب کے ستارے بھی ابھی ماند نہ تھے
صبح کاذب کے چلو بعد جدائی دیتے

کیوں انہیں جاتے ہوئے روک نہ پائے اظہر
شور کرتے تو سہی، کچھ تو دہائی دیتے
 
سائباں تھے تو مرے سر پہ دکھائی دیتے
دھوپ سے چھاوں تلک مجھ کو رسائی دیتے
میرے کس کام کی ہوتی یہ خداٗی مل کر
میں تو اُس در کا گدا، مجھکو گداٗی دیتے
موسم ہجر میں اچھا نہ تھا، بھیجا جو گلاب
راس آتی جو ہمیں آبلہ پائی دیتے
میں نے مانگی بھی نہیں اور نہ چاہت تھی کبھی
قید رکھتے تو ہی خوش تھا، نہ رہاٗی دیتے
وصل کی شب کے ستارے بھی ابھی ماند نہ تھے
صبح کاذب کے چلو بعد جدائی دیتے
کیوں انہیں جاتے ہوئے روک نہ پائے اظہر
شور کرتے تو سہی، کچھ تو دہائی دیتے
 

الف عین

لائبریرین
حاضر ہے اصلاح

سائباں تھے تو مرے سر پہ دکھائی دیتے
دھوپ سے چھاوں تلک مجھ کو رسائی دیتے
// مطلب۔۔۔؟؟

میرے کس کام کی ہوتی یہ خدائی مل کر
میں تو اُس در کا گدا، مجھکو گدائی دیتے
۔۔ یہ بھی مبہم ہے۔

موسم ہجر میں اچھا نہ تھا، بھیجا جو گلاب
راس آتی جو ہمیں آبلہ پائی دیتے
// شاید مراد ’اچھا نہ کیا‘ ہے، اچھا نہ تھا‘ سے تو یہ مراد ہو جاتی ہے کہ وہ گلاب اچھا نہ تھا، لیکن شاید بلکہ یقیناً یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ یہ عمل اچھا نہیں تھا۔
یہ تو اچھا نہ کیا ہجر میں بھیجا جو گلاب
راس آتی جو ہمیں آبلہ پائی دیتے

میں نے مانگی بھی نہیں اور نہ چاہت تھی کبھی
قید رکھتے تو ہی خوش تھا، نہ رہائی دیتے
//اس شعر میں بھی روانی کی کمی ہے۔ یہ شکل دیکھو، کچھ بہتری محسوس ہوئی؟
اس کی چاہت ہی تھی مجھ کو نہ کبھی مانگی تھی
قید رکھنے میں ہی خوش تھا، نہ رہائی دیتے

وصل کی شب کے ستارے بھی ابھی ماند نہ تھے
صبح کاذب کے چلو بعد جدائی دیتے
//دوسرا مصرع پسند نہیں آیا۔ ’چلو‘ حشو ہے۔ ’جدائی دینا‘ محاورہ نہیں۔ لیکن یہ ردیف کی مجبوری ہے۔ اس کو اسی شکل میں یوں کہا جا سکتا ہے مثلاً
۔۔۔جب شفق پھیلتی، اس وقت جدائی دیتے

کیوں انہیں جاتے ہوئے روک نہ پائے اظہر
شور کرتے تو سہی، کچھ تو دہائی دیتے
// درست۔ اس شعر کی روانی دیکھو۔۔
 
حاضر ہے اصلاح

سائباں تھے تو مرے سر پہ دکھائی دیتے
دھوپ سے چھاوں تلک مجھ کو رسائی دیتے
// مطلب۔۔۔؟؟

اُستاد محترم سائبان دھوپ سے بچا کر چھاوں تک پہنچ عطا کرتا ہے

میرے کس کام کی ہوتی یہ خدائی مل کر
میں تو اُس در کا گدا، مجھکو گدائی دیتے
۔۔ یہ بھی مبہم ہے۔


تبدیل کیے دیتا ہوں اسے جناب
میرے کس کام کی ہوتی یہ خدائی مل کر
میں گدا تھا، ترے در کا تو گدائی دیتے

موسم ہجر میں اچھا نہ تھا، بھیجا جو گلاب
راس آتی جو ہمیں آبلہ پائی دیتے
// شاید مراد ’اچھا نہ کیا‘ ہے، اچھا نہ تھا‘ سے تو یہ مراد ہو جاتی ہے کہ وہ گلاب اچھا نہ تھا، لیکن شاید بلکہ یقیناً یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ یہ عمل اچھا نہیں تھا۔
یہ تو اچھا نہ کیا ہجر میں بھیجا جو گلاب
راس آتی جو ہمیں آبلہ پائی دیتے

میں نے مانگی بھی نہیں اور نہ چاہت تھی کبھی
قید رکھتے تو ہی خوش تھا، نہ رہائی دیتے
//اس شعر میں بھی روانی کی کمی ہے۔ یہ شکل دیکھو، کچھ بہتری محسوس ہوئی؟
اس کی چاہت ہی تھی مجھ کو نہ کبھی مانگی تھی
قید رکھنے میں ہی خوش تھا، نہ رہائی دیتے

وصل کی شب کے ستارے بھی ابھی ماند نہ تھے
صبح کاذب کے چلو بعد جدائی دیتے
//دوسرا مصرع پسند نہیں آیا۔ ’چلو‘ حشو ہے۔ ’جدائی دینا‘ محاورہ نہیں۔ لیکن یہ ردیف کی مجبوری ہے۔ اس کو اسی شکل میں یوں کہا جا سکتا ہے مثلاً
۔۔۔جب شفق پھیلتی، اس وقت جدائی دیتے

کیوں انہیں جاتے ہوئے روک نہ پائے اظہر
شور کرتے تو سہی، کچھ تو دہائی دیتے
// درست۔ اس شعر کی روانی دیکھو۔۔
 
سائباں تھے تو مرے سر پہ دکھائی دیتے
دھوپ سے چھاوں تلک مجھ کو رسائی دیتے
میرے کس کام کی ہوتی یہ خداٗی مل کر
میں گدا تھا، ترے در کا تو گدائی دیتے
یہ تو اچھا نہ کیا ہجر میں بھیجا جو گلاب
راس آتی جو ہمیں آبلہ پائی دیتے
اس کی چاہت ہی تھی مجھ کو نہ کبھی مانگی تھی
قید رکھنے میں ہی خوش تھا، نہ رہائی دیتے
وصل کی شب کے ستارے بھی ابھی ماند نہ تھے
جب شفق پھیلتی، اس وقت جدائی دیتے
کیوں انہیں جاتے ہوئے روک نہ پائے اظہر
شور کرتے تو سہی، کچھ تو دہائی دیتے
 

الف عین

لائبریرین
یہ دونوB اشعار اب بھی مجھے مطمئن نہیں کر رہے۔
سائباں تھے تو مرے سر پہ دکھائی دیتے
دھوپ سے چھاوں تلک مجھ کو رسائی دیتے
سائبان دھوپ سے بچاتے ہیں، یہ تو سب کو معلوم ہے، لیکن یہاں کیسے سائباں تھے جو دکھائی نہیں دے رہے تھے اور اپنا کام بھی کر رہے تھے، لیکن پھر بھی چھاؤں نہیں دے پا رہے تھے!!​
میرے کس کام کی ہوتی یہ خداٗی مل کر
میں گدا تھا، ترے در کا تو گدائی دیتے
اس تبدیلی کے باوجود اب بھی مفہوم نہیں واضح ہو رہا۔​
 
Top