محمد اظہر نذیر
محفلین
سائباں تھے تو مرے سر پہ دکھائی دیتے
دھوپ سے چھاوں تلک مجھ کو رسائی دیتے
درد ایسا بھی نہیں تھا کہ نہ ہوتا ذائل
درد کا پوچھ ہی لیتے نہ دوائی دیتے
آبلے وصل کی راہوں کے مزہ دیتے ہیں
تب بھی کیا تھا جو مجھے آبلہ پاٗی دیتے
میں نے مانگی بھی نہیں اور نہ چاہت تھی کبھی
قید رکھتے تو ہی خوش تھا، نہ رہائی دیتے
وصل کی شب کے ستارے بھی ابھی ماند نہ تھے
صبح کاذب کے طلوع بعد جداٗی دیتے
کیوں تجھے جاتے ہوٗے روک نہ پاٗے اظہر
شور کرتے تو سہی، کچھ تو دہاٗی دیتے