احمد شاکر
محفلین
مجھے کوئی گلہ تم سے نہیں ہے بے وفائی کا
بہانہ خود ہی بن جاتا ہوں یارو جگ ہنسائی کا
میرے نالے میرے شکوے کبھی اس تک نہیں پہنچے
عذر کوئی تو ہو گا ہی میری اس نارسائی کا
گزاری زندگی دیر و حرم کے درمیاں میں نے
نباہ کیسے سکوں گا سلسلہ میں پارسائی کا
پلٹ کر بھی نہیں دیکھا مجھے اس نے تکلف سے
مجھے موقع نہیں اس نے دیا اپنی صفائی کا
غمِ دل بھی بھلا دوں گا ، ذرا کچھ دیر تو ٹھہرو
مزہ کچھ دیر لینے دو غموں سے آشنائی کا
ابھی اک اور ڈھایا ہے ستم مجھ پہ قدرداں نے
جنھیں کل مجھ سے شکوہ تھا سبب خود ہیں جدائی کا
ہمیشہ ظالموں نے شور اب تک تھا کیا پیدہ
خدایا مجھ کو بھی حاصل طریقہ ہو دہائی کا
دیارِ غیر میں ایسے کٹی ھے زندگی میری
قفس میں منتظر جیسے پرندہ ہو رہائی کا
مجھے ہر حال میں شاکرؔ انہیں گلیوں سےمطلب ہے
تقدس کی روانی ہو جہاں شیوہ خدائی کا