ایک کلام براے اصلاح "جو سرِ میداں سرِ زینبؑ سے چادر لے گئے"

فراتِ سخن

جو سرِ میداں سرِ زینبؑ سے چادر لے گئے
پشت سے بیمار ؑکی وہ لوگ بستر لے گئے
ہاتھ میں بے شیؑر کے اسلام کی تقدیر تھی
اس لئے بے شیؑر کو ہمراہ سرور لے گئے
شام کے بازار کی روداد میں روشن ہوا
فاطمہ صغریٰؑ کو آخر کیوں نہ سرور لے گئے
شاہ ؑ کی ہمشیر کو دہلیز سے ہو دج تلک
ہاشمی عظمت سے عباسِؑ دلاور لے گئے
جب چلی ہیں شام زینب ؑ بعدِ عصرِ کربلا
ہاتھ پابندِ رسن کر کے ستمگر لے گئے
پھول سے رخسار پر مارے طمانچے اور پھر
چار سالہ فاطمہ زہرا ؑ کے گوہر لے گئے
حشر میں بنتِ نبیؐ کو منہ دکھانے لے گئے
ہم فقط اشکِ غمِ سرورؑ کا لشکر لے گئے
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب ارتضیٰ۔ پسند آیا سلام۔
یہ شعر وضاحت چاہتا ہے۔
شام کے بازار کی روداد میں روشن ہوا​
فاطمہ صغریٰؑ کو آخر کیوں نہ سرور لے گئے​
اور سرور کا قافیہ بھی پچھلے شعر میں ہی آیا ہے۔ یہاں فاصلہ کر دو اس شعر سے۔​
اور آخری شعر میں پہلا مصرع بھی ’لے گئے‘ الفاظ پر ختم ہو رہا ہے، جو ردیف بھی ہے۔ اس سقم کو درست کر دو۔​
 
بہت خوب ارتضیٰ۔ پسند آیا سلام۔
یہ شعر وضاحت چاہتا ہے۔
شام کے بازار کی روداد میں روشن ہوا​
فاطمہ صغریٰؑ کو آخر کیوں نہ سرور لے گئے​
اور سرور کا قافیہ بھی پچھلے شعر میں ہی آیا ہے۔ یہاں فاصلہ کر دو اس شعر سے۔​
اور آخری شعر میں پہلا مصرع بھی ’لے گئے‘ الفاظ پر ختم ہو رہا ہے، جو ردیف بھی ہے۔ اس سقم کو درست کر دو۔​
جناب محترم اعجاز عبید صاحب!
جس شعر کو آپ ناقابلِ درک کہہ رہے ہیں۔ احقر سمجھتا ہے کہ یہ بہت واضح ہے۔ تاریخ کربلا سے اگر آپ واقف ہوں تو آپ دیکھ سکیں گے کہ بی بی صغریٰ (س) کو امام حسین (ع) اس وجہ سے گھر (مدینہ) چھوڑ گئے تھے کہ شام کے بازار میں اہلِ حرم کی حرمت پہ حرفِ گراں آنے کو تھا! تو شاعر کو امام کے اس امر کی وجہ شام کے بازار کی روداد دیکھنے پڑھنے کے بعد معلوم ہوئی ہے۔
جی اس طرف میری توجہ نہ رہی تھی۔ اس شعر کو کہیں اواخر میں لے جاتا ہوں۔
جی جناب وہ در اصل بے دھیانی میں اس طرح لکھ دیا گیا ہے۔ اصل میں یہ اس ڈھنگ سے ہے:
حشر میں بنتِ نبی کو منہ دکھانے کے لیے
ہم فقط اشکِ غمِ سرور کا لشکر لے گئے!
 

الف عین

لائبریرین
’روداد میں روشن ہوا‘ کا بیانیہ واضح نہیں، اس وجہ سے سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ ان الفاظ سے ’سن کر علم ہوا‘ کا مطلب صاف نہیں نکلتا۔
باقی دونوں اسقام کو دیکھ ہی لیا ہے تم نے۔
 
Top