زرقا مفتی
محفلین
اخلاقیات کے نصاب میں ہمیں بتایا جاتارہا کہ سب سے بہتر انسان وہ ہے جو متقی ہے ۔ یعنی خوفِ خدا رکھتا ہے۔
لیکن اکیسویں صدی میں آ کر ہمیں معلوم ہوا کہ معاشرے میں قابلِ عزت وہ ہے جو شہر کی پوش آبادی میں رہتا ہے ۔ جس کے پورچ میں نئے ماڈل کی کار یں کھڑی ہیں ، اور جس کے بچے مہنگی فیس وصول کرنے والے نجی تعلیمی ادارے میں پڑھتے ہیں۔ اپنی عزت میں اضافہ کرنا ہمارا بھی پیدائشی حق ہے ۔ اس لئے اس کے حصول کے لئے ہم بھی وہی کچھ کرتے ہیں جو معاشرے کے باقی افراد کر رہے ہیں یعنی معاشرے میں جاری مادے کی دوڑ یا چوہا دوڑ میں ہم بھی شریک ہیں۔
ہمارے شہر کی کچھ پوش آبادیاں اپنی بوسیدہ سڑکوں اور پرانے وضع دار مکینوں کی وجہ سے اب پوش نہیں کہلاتیں ۔ اسی لیے حسب ِ منشا وسائل میسر آنے پر وہاں کے مکین سٹیٹس کے اگلے پڑاؤمیں چھلانگ لگا دیتے ہیں یعنی کسی نئی آبادی میں نیا مکان بنا لیتے ہیں۔ ہم نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ آتو گئے ایک نئی پوش آبادی میں مگر وہاں کے مینر ازم سیکھے بغیر۔
سوسائٹی میں آکر معلوم ہوا کہ یہاں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ساتھ والی پڑوسن کو وقت بے وقت ملنے کا رواج نہیں۔بیگمات ایک دوسرے سے ملاقات کے لئے مہینہ بھر انتظار کرتی ہیں پھر کسی ایک گھر میں پُر تکلف چائے کا اہتمام ہوتا ہے اور ملاقات بھی۔
میں بھی صبر کئے بیٹھے رہی د ل کی باتیں دل ہی میں رہ گئیں۔ مہینے بھر میں آس پڑوس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوا کس کے کتنے بچے ہیں ۔ میاں کیسے مزاج کے ہیں سسرالی رشتہ دار ساتھ رہتے ہیں یا نہیں۔ ساس بہو کی آپس میں بنتی ہے یا نہیں۔کس کے گھر میں کیسا فرنیچر ہے کیسی کراکری ہے۔ بچے کہاں پڑھتے ہیں۔ یہ بھی کیسی ہمسائیگی ہے کہ ہمیں کسی کی خبر نہیں۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے نیک شوہر کا کہ پنچ وقتہ نمازی ہیں ۔ اُن کے میل ملاقات سے معلوم ہوا کہ آس پڑوس میں کون کون سی ہستیاں رہتیں ہیں۔
خیر رمضان سے کچھ روز پہلے مجھے بلاوا آ ہی گیا ۔ میں بڑی خوشی سے تیار ہو کر جانے لگی کہ شوہرِ نامدار نے ایک لکچر پلا دیا کہ وہاں کسی سے زیادہ بے تکلف ہونے کی ضرورت نہیں اور اپنے اعلٰی و ا رفع خیالات سے محفل کو مستفید کرنے کی کوشش مت کرنا۔میرے ارمانوں پر تو اوس ہی پڑگئی یہ کیا کہ خواتین کی محفل میں جاؤ اور وہ بھی منہ پر تالے لگا کر۔ چارو ناچار حکمِ زباں بندی بجا لانے کا عہد کرنا پڑا ۔ آخر کو میں ٹھہری مشرقی بیوی مجازی خدا کے حکم سے سرتابی کی مجال مجھ میں کہاں؟؟؟
خیر یہ تو میں بتانا بھول گئی کہ چائے کی دعوت سوسائٹی کے صدر کی بیگم کی طرف سے تھی۔ اپنا ایک مہنگا سا آسمانی رنگ کا ریشمی جوڑا میچنگ جیولری کے ساتھ پہنا اور ہلکا سا میک اپ بھی کر لیا۔ ویسے تو میں جانتی ہوں کہ نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی۔ مگر کیا کیجئے شوہر کی عزت کا معاملہ ہے بیوی سادہ سے کپڑوں میں زیور پہنے بغیر کہیں جائے گی تو لوگ یہی کہیں گے ناکہ شوہر نے تنگ رکھا ہوا ہے نہ ڈھنگ کا پہناوا ہے نہ سنگھار۔خیر صدر صاحب کے گھر کی گھنٹی بجائی تو ایک ملازم باہر آیا اور مجھے ڈرائنگ روم کا راستہ دکھایا۔ ڈرائنگ روم میں روشنی بہت مدہم تھی ۔پہلے میں کچھ گھبرائی پھر حاضرین کو سلام داغ دیا اپنا تعارف کروایا۔ صدر صاحب کی بیگم شرمین نے باقی سب خواتین سے تعارف کروایا، یہ ڈاکٹر عائشہ ہیں ، یہ عینی ہیں ، یہ نیلم آپاہیں ، یہ ہما ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ میں اب تک اپنے شوہر کی زبانی مرد حضرات کے ناموں سے واقف تھی اب سوچنے لگی ان میں سے کون کس کی بیگم ہو سکتی ہیں۔تھوڑی دیر بعد آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو تسلی ہوئی کہ ان کے گھر کا فرنیچر کچھ ایسا بھی اعلیٰ نہیں اور ڈرائنگ روم بھی میرے ڈرائنگ روم سے کچھ چھوٹا ہی ہے۔ اب باری باری سب کے کپڑوں کا جائزہ لینا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ایک میں ہی ہوں جو ریشمی جوڑے میں ملبوس ہوں۔ باقی سب بریزے یا کھڈی کے مہنگے کلف زدہ سوتی لباس پہنے ہوئے ہیں۔اور اکثر خواتین کی محفل میں دوپٹے سروں پر لئے بیٹھی ہیں۔ پھر معلوم ہوا کہ سوسائٹی میں قرآن کے درس اور ترجمہ کی باقاعدہ کلا سیں ہوتیں ہیں۔ مجھے سخت کوفت ہونے لگی۔کہ جو نصیحتیں گھر میں سننے کو ملتیں ہیں یہاں بھی وہی سننی ہو نگی ۔ میں تو یہاں انجوائے کرنے آئی تھی۔ میرے ساتھ بیٹھی خاتون بالکل خاموش تھیں اور مجھے حکمِ زباں بندی کا پاس تھا اب کوئی مجھ سے بات کرے تو مرے منہ سے پھول جھڑیں۔
خیر تھوڑی دیر میں معلوم ہوا محفل استقبالِ رمضان کے لئے سجائی گئی ہے۔ نیلم آپانے دوپٹہ اور اچھی طرح لپیٹا اور بیان شروع کیا کہ ہم سب نے اپنے نفس کو خدا بنا رکھا ہے ۔ نفس پرستی میں ہم کتنے آگے نکل آئے ہیں۔ وہ ایک چھوٹے سے کتابچے سے پڑھ رہی تھیں۔ باقیوں کا تو مجھے معلوم نہیں پگر پہلے میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی کہ میں بھی اپنے نفس کی بندی بن چکی ہوں۔ مجھے اپنا ہر عمل قابلِ نفرین نظر آنے لگا۔ قریب تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے کہ میرے نفس نے مجھ پر قابو پا لیا۔ اور سمجھایا دیکھو کہاں بیٹھی ہو گھر کی آرائش دیکھو ، فرنیچر دیکھو ، ان سب کے ملبوس دیکھو سوتی ہیں تو کیا ہوا جن دوکانوں سے خریدے گئے ہیں وہاں کوئی جوڑا پانچ ہزار سے کم نہیں ملتا۔ ان کے کانوں اور ہاتھوں میں دیکھو چھوٹے ہی سہی ٹاپس اور انگوٹھیوں میں ہیرے جگمگا رہے ہیں۔ میں پہلی بار اپنے نفس کی شکر گزار ہوئی۔
نیلم آپااب صدقہءفطر کے بارے میں تلقین کر رہی تھیں کہ ضروری نہیں آپ ڈھائی کلو گندم کے برابر ہی دیں ڈھائی کلو بادام کے برابر بھی دے سکتے ہیں۔ میں دل ہی دل میں ضرب دی گھر میں ہم چار افراد ہیں ڈھائی کلو بادام کی گریاں فی کس یعنی دس ہزار روپے فطرانہ ۔ اور پھر میری مڈل کلاس ذہنیت عود کر آئی اتنے پیسوں میں تو ایک کمرے کے پردے بدلے جا سکتے ہیں جب اللہ نے آسانی کی ہے تو کیوں مشکل میں پڑیں ڈھائی کلو گندم ہی ٹھیک ہے۔ مگر دل ہی دل میں نیلم آپا کے طرف کی معترف بھی ہوئی جو اتنی رقم فطرانہ میں دینا چاہتیں تھیں۔ اب وہ کہہ رہیں تھیں کہ زکوة سے ہٹ کر بھی خیرات کیجئے بہت با برکت مہینہ ہے۔
شرمین کہنے لگی مجھے تو بہت مشکل ہوتی ہے کوئی مستحق نظر نہیں آتا ۔ اُس کی بات سُن کر میری زبان کھلتی کھلتی رہ گئی کہ گھر کے ملازموں کی ہی کتنی ضروریات ہوتی ہیں باہر تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔۔مجھے یاد آیا کہ کل ہی سوسائٹی کا چوکیدار اپنی بیٹی کی شادی کے لئے مدد مانگ رہا تھا۔۔۔اور میرے خداترس شوہر نے اُس سے وعدہ بھی کر لیا تھا۔۔کیا وہ شرمین کے گھر نہ آیا ہوگا؟؟؟ مگر میں خاموش رہی ۔۔۔۔حکمِ زباں بندی کا پاس رکھنا تھا نا
میں سوچوں سے جان چھڑا کر پھر نیلم آپا کی طرف متوجہ ہوئی، وہ کہہ رہی تھیں کہ سحری کے لئے جلدی اُٹھیئے نوافل ادا کیجئے ۔ اتنے میں سحری تیار ہو چکی ہوگی جو خود کھائیے وہی ملازمین کو بھی کھلایئے دل بڑا کیجئے ۔ میں پھر سوچنے لگی آخر کتنی جلدی اُٹھا جائے ۔ میرے پاس کونسا باورچی ہے؟؟ خود ہی سحری تیار کرنی ہے گھر میں چار افراد ہیں مگر ایک کو پراٹھا کھاناہے دوسرے کو نہیں کھانا۔ ایک کو سالن پسند نہیں تو کباب فرائی کرنے ہیں یا آملیٹ بنانا ہے۔ بیچ بیچ میں بچوں کو جا جا کر جگانا بھی ہے۔ خود بھی سحری کھانی ہے ، کچن میں برتن سمیٹنے ہیں نماز پڑھنی ہے قرآن کی تلاوت کرنی ہے اور ساتھ ہی بچوں کے سکول کا وقت ہو جانا ہے نہیں بھئی میں تو اس سے سے جلدی نہیں اُٹھ سکتی
ہائے یہ سب کتنی خوش قسمت ہیں ۔ کتنا ثواب حاصل کرتی ہیں ایک تو تہجد کا ثواب مل گیا اور دوسرے سحری بنانے سے نجات مل گئی اور ملازمین کو اپنے ساتھ بٹھایا کھلایا تو جنت پکی ہوگئی اور ایک میں ہوں کہ جو سالن بچ رہتا ہے وہ کام والی ماسی کے لیے رکھ دیتی ہوں۔میری بخشش کیسے ہوگی؟؟؟
نیلم آپا کی آواز رقت آمیز ہو چکی تھی بار بار تلقین کر رہی تھیں کہ رمضان میں دل کھلا کیجئے ملازمین کو بھی اچھا کھلایئے۔۔۔۔اور فریج میں رکھے انڈے مت گنا کیجئے
اور ساتھ ہی رونے لگیں میں اُن کی نیک دلی سے بے طرح مرعوب ہو چکی تھی ۔۔۔۔
کہ وہ بولیں
اللہ مجھے معاف کرے میں اب تک فریج میں رکھے انڈے گنتی ہوں۔
اور میں اپنی اخلاقی حالت پر رونے کی بجائے۔۔۔۔۔۔ کھلکھلا کر ہنس پڑی
لیکن اکیسویں صدی میں آ کر ہمیں معلوم ہوا کہ معاشرے میں قابلِ عزت وہ ہے جو شہر کی پوش آبادی میں رہتا ہے ۔ جس کے پورچ میں نئے ماڈل کی کار یں کھڑی ہیں ، اور جس کے بچے مہنگی فیس وصول کرنے والے نجی تعلیمی ادارے میں پڑھتے ہیں۔ اپنی عزت میں اضافہ کرنا ہمارا بھی پیدائشی حق ہے ۔ اس لئے اس کے حصول کے لئے ہم بھی وہی کچھ کرتے ہیں جو معاشرے کے باقی افراد کر رہے ہیں یعنی معاشرے میں جاری مادے کی دوڑ یا چوہا دوڑ میں ہم بھی شریک ہیں۔
ہمارے شہر کی کچھ پوش آبادیاں اپنی بوسیدہ سڑکوں اور پرانے وضع دار مکینوں کی وجہ سے اب پوش نہیں کہلاتیں ۔ اسی لیے حسب ِ منشا وسائل میسر آنے پر وہاں کے مکین سٹیٹس کے اگلے پڑاؤمیں چھلانگ لگا دیتے ہیں یعنی کسی نئی آبادی میں نیا مکان بنا لیتے ہیں۔ ہم نے بھی کچھ ایسا ہی کیا۔ آتو گئے ایک نئی پوش آبادی میں مگر وہاں کے مینر ازم سیکھے بغیر۔
سوسائٹی میں آکر معلوم ہوا کہ یہاں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ساتھ والی پڑوسن کو وقت بے وقت ملنے کا رواج نہیں۔بیگمات ایک دوسرے سے ملاقات کے لئے مہینہ بھر انتظار کرتی ہیں پھر کسی ایک گھر میں پُر تکلف چائے کا اہتمام ہوتا ہے اور ملاقات بھی۔
میں بھی صبر کئے بیٹھے رہی د ل کی باتیں دل ہی میں رہ گئیں۔ مہینے بھر میں آس پڑوس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوا کس کے کتنے بچے ہیں ۔ میاں کیسے مزاج کے ہیں سسرالی رشتہ دار ساتھ رہتے ہیں یا نہیں۔ ساس بہو کی آپس میں بنتی ہے یا نہیں۔کس کے گھر میں کیسا فرنیچر ہے کیسی کراکری ہے۔ بچے کہاں پڑھتے ہیں۔ یہ بھی کیسی ہمسائیگی ہے کہ ہمیں کسی کی خبر نہیں۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے نیک شوہر کا کہ پنچ وقتہ نمازی ہیں ۔ اُن کے میل ملاقات سے معلوم ہوا کہ آس پڑوس میں کون کون سی ہستیاں رہتیں ہیں۔
خیر رمضان سے کچھ روز پہلے مجھے بلاوا آ ہی گیا ۔ میں بڑی خوشی سے تیار ہو کر جانے لگی کہ شوہرِ نامدار نے ایک لکچر پلا دیا کہ وہاں کسی سے زیادہ بے تکلف ہونے کی ضرورت نہیں اور اپنے اعلٰی و ا رفع خیالات سے محفل کو مستفید کرنے کی کوشش مت کرنا۔میرے ارمانوں پر تو اوس ہی پڑگئی یہ کیا کہ خواتین کی محفل میں جاؤ اور وہ بھی منہ پر تالے لگا کر۔ چارو ناچار حکمِ زباں بندی بجا لانے کا عہد کرنا پڑا ۔ آخر کو میں ٹھہری مشرقی بیوی مجازی خدا کے حکم سے سرتابی کی مجال مجھ میں کہاں؟؟؟
خیر یہ تو میں بتانا بھول گئی کہ چائے کی دعوت سوسائٹی کے صدر کی بیگم کی طرف سے تھی۔ اپنا ایک مہنگا سا آسمانی رنگ کا ریشمی جوڑا میچنگ جیولری کے ساتھ پہنا اور ہلکا سا میک اپ بھی کر لیا۔ ویسے تو میں جانتی ہوں کہ نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی۔ مگر کیا کیجئے شوہر کی عزت کا معاملہ ہے بیوی سادہ سے کپڑوں میں زیور پہنے بغیر کہیں جائے گی تو لوگ یہی کہیں گے ناکہ شوہر نے تنگ رکھا ہوا ہے نہ ڈھنگ کا پہناوا ہے نہ سنگھار۔خیر صدر صاحب کے گھر کی گھنٹی بجائی تو ایک ملازم باہر آیا اور مجھے ڈرائنگ روم کا راستہ دکھایا۔ ڈرائنگ روم میں روشنی بہت مدہم تھی ۔پہلے میں کچھ گھبرائی پھر حاضرین کو سلام داغ دیا اپنا تعارف کروایا۔ صدر صاحب کی بیگم شرمین نے باقی سب خواتین سے تعارف کروایا، یہ ڈاکٹر عائشہ ہیں ، یہ عینی ہیں ، یہ نیلم آپاہیں ، یہ ہما ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ میں اب تک اپنے شوہر کی زبانی مرد حضرات کے ناموں سے واقف تھی اب سوچنے لگی ان میں سے کون کس کی بیگم ہو سکتی ہیں۔تھوڑی دیر بعد آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو تسلی ہوئی کہ ان کے گھر کا فرنیچر کچھ ایسا بھی اعلیٰ نہیں اور ڈرائنگ روم بھی میرے ڈرائنگ روم سے کچھ چھوٹا ہی ہے۔ اب باری باری سب کے کپڑوں کا جائزہ لینا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ایک میں ہی ہوں جو ریشمی جوڑے میں ملبوس ہوں۔ باقی سب بریزے یا کھڈی کے مہنگے کلف زدہ سوتی لباس پہنے ہوئے ہیں۔اور اکثر خواتین کی محفل میں دوپٹے سروں پر لئے بیٹھی ہیں۔ پھر معلوم ہوا کہ سوسائٹی میں قرآن کے درس اور ترجمہ کی باقاعدہ کلا سیں ہوتیں ہیں۔ مجھے سخت کوفت ہونے لگی۔کہ جو نصیحتیں گھر میں سننے کو ملتیں ہیں یہاں بھی وہی سننی ہو نگی ۔ میں تو یہاں انجوائے کرنے آئی تھی۔ میرے ساتھ بیٹھی خاتون بالکل خاموش تھیں اور مجھے حکمِ زباں بندی کا پاس تھا اب کوئی مجھ سے بات کرے تو مرے منہ سے پھول جھڑیں۔
خیر تھوڑی دیر میں معلوم ہوا محفل استقبالِ رمضان کے لئے سجائی گئی ہے۔ نیلم آپانے دوپٹہ اور اچھی طرح لپیٹا اور بیان شروع کیا کہ ہم سب نے اپنے نفس کو خدا بنا رکھا ہے ۔ نفس پرستی میں ہم کتنے آگے نکل آئے ہیں۔ وہ ایک چھوٹے سے کتابچے سے پڑھ رہی تھیں۔ باقیوں کا تو مجھے معلوم نہیں پگر پہلے میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی کہ میں بھی اپنے نفس کی بندی بن چکی ہوں۔ مجھے اپنا ہر عمل قابلِ نفرین نظر آنے لگا۔ قریب تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے کہ میرے نفس نے مجھ پر قابو پا لیا۔ اور سمجھایا دیکھو کہاں بیٹھی ہو گھر کی آرائش دیکھو ، فرنیچر دیکھو ، ان سب کے ملبوس دیکھو سوتی ہیں تو کیا ہوا جن دوکانوں سے خریدے گئے ہیں وہاں کوئی جوڑا پانچ ہزار سے کم نہیں ملتا۔ ان کے کانوں اور ہاتھوں میں دیکھو چھوٹے ہی سہی ٹاپس اور انگوٹھیوں میں ہیرے جگمگا رہے ہیں۔ میں پہلی بار اپنے نفس کی شکر گزار ہوئی۔
نیلم آپااب صدقہءفطر کے بارے میں تلقین کر رہی تھیں کہ ضروری نہیں آپ ڈھائی کلو گندم کے برابر ہی دیں ڈھائی کلو بادام کے برابر بھی دے سکتے ہیں۔ میں دل ہی دل میں ضرب دی گھر میں ہم چار افراد ہیں ڈھائی کلو بادام کی گریاں فی کس یعنی دس ہزار روپے فطرانہ ۔ اور پھر میری مڈل کلاس ذہنیت عود کر آئی اتنے پیسوں میں تو ایک کمرے کے پردے بدلے جا سکتے ہیں جب اللہ نے آسانی کی ہے تو کیوں مشکل میں پڑیں ڈھائی کلو گندم ہی ٹھیک ہے۔ مگر دل ہی دل میں نیلم آپا کے طرف کی معترف بھی ہوئی جو اتنی رقم فطرانہ میں دینا چاہتیں تھیں۔ اب وہ کہہ رہیں تھیں کہ زکوة سے ہٹ کر بھی خیرات کیجئے بہت با برکت مہینہ ہے۔
شرمین کہنے لگی مجھے تو بہت مشکل ہوتی ہے کوئی مستحق نظر نہیں آتا ۔ اُس کی بات سُن کر میری زبان کھلتی کھلتی رہ گئی کہ گھر کے ملازموں کی ہی کتنی ضروریات ہوتی ہیں باہر تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔۔مجھے یاد آیا کہ کل ہی سوسائٹی کا چوکیدار اپنی بیٹی کی شادی کے لئے مدد مانگ رہا تھا۔۔۔اور میرے خداترس شوہر نے اُس سے وعدہ بھی کر لیا تھا۔۔کیا وہ شرمین کے گھر نہ آیا ہوگا؟؟؟ مگر میں خاموش رہی ۔۔۔۔حکمِ زباں بندی کا پاس رکھنا تھا نا
میں سوچوں سے جان چھڑا کر پھر نیلم آپا کی طرف متوجہ ہوئی، وہ کہہ رہی تھیں کہ سحری کے لئے جلدی اُٹھیئے نوافل ادا کیجئے ۔ اتنے میں سحری تیار ہو چکی ہوگی جو خود کھائیے وہی ملازمین کو بھی کھلایئے دل بڑا کیجئے ۔ میں پھر سوچنے لگی آخر کتنی جلدی اُٹھا جائے ۔ میرے پاس کونسا باورچی ہے؟؟ خود ہی سحری تیار کرنی ہے گھر میں چار افراد ہیں مگر ایک کو پراٹھا کھاناہے دوسرے کو نہیں کھانا۔ ایک کو سالن پسند نہیں تو کباب فرائی کرنے ہیں یا آملیٹ بنانا ہے۔ بیچ بیچ میں بچوں کو جا جا کر جگانا بھی ہے۔ خود بھی سحری کھانی ہے ، کچن میں برتن سمیٹنے ہیں نماز پڑھنی ہے قرآن کی تلاوت کرنی ہے اور ساتھ ہی بچوں کے سکول کا وقت ہو جانا ہے نہیں بھئی میں تو اس سے سے جلدی نہیں اُٹھ سکتی
ہائے یہ سب کتنی خوش قسمت ہیں ۔ کتنا ثواب حاصل کرتی ہیں ایک تو تہجد کا ثواب مل گیا اور دوسرے سحری بنانے سے نجات مل گئی اور ملازمین کو اپنے ساتھ بٹھایا کھلایا تو جنت پکی ہوگئی اور ایک میں ہوں کہ جو سالن بچ رہتا ہے وہ کام والی ماسی کے لیے رکھ دیتی ہوں۔میری بخشش کیسے ہوگی؟؟؟
نیلم آپا کی آواز رقت آمیز ہو چکی تھی بار بار تلقین کر رہی تھیں کہ رمضان میں دل کھلا کیجئے ملازمین کو بھی اچھا کھلایئے۔۔۔۔اور فریج میں رکھے انڈے مت گنا کیجئے
اور ساتھ ہی رونے لگیں میں اُن کی نیک دلی سے بے طرح مرعوب ہو چکی تھی ۔۔۔۔
کہ وہ بولیں
اللہ مجھے معاف کرے میں اب تک فریج میں رکھے انڈے گنتی ہوں۔
اور میں اپنی اخلاقی حالت پر رونے کی بجائے۔۔۔۔۔۔ کھلکھلا کر ہنس پڑی