محمود احمد غزنوی
محفلین
آج نوید صادق کی خوبصورت نظم 'تکمیل شکست' پڑھی تو یکایک مجھے بیس سال پرانی اپنی ایک نظم یاد آئی جس میں واردات تو کچھ ایسی ہی تھی لیکن اسکا اظہار 19 سالہ لڑکے کا ہی ہے جس میں کوئی پختگی یا شائد خیال کی گہرائی آپ کو نہ ملے۔ ۔ ۔ بد مزہ ہونے والے احباب سے پیشگی معذرت کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔
خوابوں کا متوالا تھا
اپنی ذات میں گم صم رہنا
چپ چپ رہنا۔ ۔ ۔
سدا سے اسکا شیوہ تھا۔۔۔۔۔۔۔
اپنی انا کی چادر اوڑھے۔ ۔ ۔
جاگتی آنکھوں سے وہ ہمیشہ
سپنے چنتا رہتا تھا۔ ۔ ۔ ۔
سمٹا سہما رہتا تھا !
اک دن اسکے سُونے گھر میں
خوابوں کے سنسان نگر میں
ایک کرن کی آہٹ گونجی۔ ۔ ۔ ۔
دل کے بند دریچوں پر
اک میٹھی میٹھی دستک تھی
اُس کے خوابوں کی شہزادی
چاند نگر سے آئی تھی !!
جانے کتنی صدیاں گذریں۔ ۔ ۔
اُسکو خود سے لڑتے لڑتے،
اور آخر جب اُس لڑکے نے۔ ۔ ۔
خولِ انا سے باہر آکر۔ ۔ ۔
دل کے بند دریچے کھولے۔ ۔ ۔
تو اسکے خوابوں کی شہزادی
کہیں نہیںتھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہیںسے واپس لوٹ گئی تھی
یا پھر شائد آئی ہی نہیں تھی !!
مدّتیں گذر گئی ہیں لیکن۔ ۔ ۔
اُس شوخ کرن کی آہٹ اب بھی گونجتی ہے۔ ۔ ۔
آنکھوں کے بے خواب نگر میں،
اور وہ میٹھی میٹھی دستک
اب بھی سنائی دیتی ہے
یاد کے سُونے آنگن میں !!!
لیکن وہ نادان سا لڑکا۔ ۔
وہ خوابوں کے نگر کا باسی۔ ۔ ۔
پھر لوٹ کر نہیںآیا
جھوٹے سپنوں کی دنیا میں۔
راہیں بھی لاعلم ہیں اب تک
چُپ چاپ جانے کدھر گیا وہ۔۔۔۔۔
شائد وہ ملے اُس بستی می
جہاں بے حس انساں بستے ہیں۔ ۔ ۔
جہاں خواب نہیں حقائق ہیں۔ ۔ ۔
حقائق۔۔۔۔
جو تلخ تر ہیں !!!!
ایک کہانی بہت پرانی
اک لڑکا سیدھا سادہ سا۔ ۔ ۔خوابوں کا متوالا تھا
اپنی ذات میں گم صم رہنا
چپ چپ رہنا۔ ۔ ۔
سدا سے اسکا شیوہ تھا۔۔۔۔۔۔۔
اپنی انا کی چادر اوڑھے۔ ۔ ۔
جاگتی آنکھوں سے وہ ہمیشہ
سپنے چنتا رہتا تھا۔ ۔ ۔ ۔
سمٹا سہما رہتا تھا !
اک دن اسکے سُونے گھر میں
خوابوں کے سنسان نگر میں
ایک کرن کی آہٹ گونجی۔ ۔ ۔ ۔
دل کے بند دریچوں پر
اک میٹھی میٹھی دستک تھی
اُس کے خوابوں کی شہزادی
چاند نگر سے آئی تھی !!
جانے کتنی صدیاں گذریں۔ ۔ ۔
اُسکو خود سے لڑتے لڑتے،
اور آخر جب اُس لڑکے نے۔ ۔ ۔
خولِ انا سے باہر آکر۔ ۔ ۔
دل کے بند دریچے کھولے۔ ۔ ۔
تو اسکے خوابوں کی شہزادی
کہیں نہیںتھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہیںسے واپس لوٹ گئی تھی
یا پھر شائد آئی ہی نہیں تھی !!
مدّتیں گذر گئی ہیں لیکن۔ ۔ ۔
اُس شوخ کرن کی آہٹ اب بھی گونجتی ہے۔ ۔ ۔
آنکھوں کے بے خواب نگر میں،
اور وہ میٹھی میٹھی دستک
اب بھی سنائی دیتی ہے
یاد کے سُونے آنگن میں !!!
لیکن وہ نادان سا لڑکا۔ ۔
وہ خوابوں کے نگر کا باسی۔ ۔ ۔
پھر لوٹ کر نہیںآیا
جھوٹے سپنوں کی دنیا میں۔
راہیں بھی لاعلم ہیں اب تک
چُپ چاپ جانے کدھر گیا وہ۔۔۔۔۔
شائد وہ ملے اُس بستی می
جہاں بے حس انساں بستے ہیں۔ ۔ ۔
جہاں خواب نہیں حقائق ہیں۔ ۔ ۔
حقائق۔۔۔۔
جو تلخ تر ہیں !!!!