ایک کہانی (شیخ یہودی دویم ) - قسط 14

سید رافع

محفلین
شیخ یہودی دویم - سو لفظوں کی کہانی

۲۰۰۷ کا ایک دن چڑھا جمعے کی نماز کا وقت قریب تھا۔

لڑکا نماز جمعہ سے قبل ایک مختصر سی ای میل نوم چومسکی کو بھیجتا ہے۔

نوم چومسکی امریکہ کی پینسلوینیا یورنیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہے۔

پیدایش کے اعتبار سے وہ ان ۸۰ فیصد یہودی میں سے جو اشکنازک ہیں ۔لیکن چومسکی اسرایل کا کھلا مخالف ہے۔

اب وہ ایک ماہر ادبیات کے طور پر امریکہ کی معروف یورنیورسٹی ایم آی ٹی میں ۱۹۵۵ سے پروفیسر ہے۔

چومسکی ایک ملحد فلاسفر اور ویت نام جنگ کی کھلی مخالفت کے بعد ایک سیاسی تجزیہ نگار کے طور پر ابھرا۔

اسنے پروپیگنڈہ پر سیر حاصل بحث کی اور اسکے ذریعے خون کی ہولی کیسے کھیلی جا رہی ہے ایک کتاب بھی لکھی۔

لڑکے کو اسی آخری بات نے مجبور کیا کہ چومسکی سے بات چیت کی جاے۔

نماز جمعہ پر جانے سے قبل لڑکا چومسکی کو ای میل لکھتا ہے کہ سادہ زندگی گزارنا کیوں مشکل ہوتا جا رہا ہے؟ اسکے بارے میں کیا کیا جاے؟ کیا پروپگینڈے کے ذریعے ہم انسانوں کو سادہ اوردرگزر کرنے والی زندگی کے بارے میں برین واش کر سکتے ہیں؟ کیا اس پروپگینڈے کا جنگوں اور ماحولیاتی تبدلیوں پر یکساں اثر نہ پڑے گا؟

چومسکی ایک سطری جواب دیتا ہے، یہ مشکل سوال ہیں، میں اسکا جواب نہیں دے سکتا۔

لڑکا جوابا لکھتا ہےیہ سوال کیونکر مشکل ہیں؟

چومسکی پھر ایک سطری جواب دیتا ہے، اگر یہ سوال مشکل نہیں تو میں ان کے جواب سننے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔

لڑکا ڈینیل پایپ سے رشدی ، تسلیمہ نسرین، آمینہ ودود، جے لینڈ پوسٹر اور پوب بینڈڈ پر کی گی ایک طویل گفتگو چومسکی کو بھیجتا ہے۔لڑکے کے ذہن میں اسلام ایک سادہ سا حل ہے۔

چومسکی اس پر ایک فلسفی کی مشکلات کو لکھتا ہے ۔

چومسکی جواب میں کہتا ہے، میں نے آپکے جواب پڑھ لیے۔ اگر یہ آپ کے لیے تسلی بخش ہیں، تو ٹھیک۔ اور آپ خوش قسمت ہیں۔ لیکن میرے لیےایک طرح کے معبود کو دوسرے معبود پر تسلیم کرنے کی کو ی معقول وجہ نہیں دکھای دیتی۔ سو میرے لیے یہ جوابات بے معنی ہیں۔ لہذا اسکا جواب دینا میرے لیے مشکل ہی رہا۔

لڑکا لکھتا ہے کہ اب میں سمجھا کہ آپ کو جواب دینا مشکل کیوں ہوا۔ لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اگر انسانی اخلاق کو الہامی کتب سے ہدایت نہ ملے تو پھر کہاں سے ملے؟

چومسکی جوابا لکھتا ہے، یہ سوال غلط طریق پر کیا گیا۔ یہ سوال پہلے ہی تسلیم کر لیتا ہے کہ الہامی کتاب کو ہی انسانی اخلاق کو سمت دینی چاہیے۔ لیکن یوں تو الہامی کتاب کو کسی بھی بات کو حق بجانب کہنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال توریت جو کہ موجودہ مذاہب میں دل کی حیثیت رکھتی ہے ایک ایسی مقدس ہستی کو بیان کرتی ہے جو شاید انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ انسانوں کو ذبح کرنے والی تھی۔ نوآبادیاتی مقامی لوگوں کو قتل کر رہے تھے جب وہ امریکہ میں الہامی کتاب لہراتے ہوے داخل ہو رہے تھے۔ اسرایل کے فرزند وعدہ کی گئی زمین میں داخل ہوتے ہوے املیکٹز کو معبود برحق کے نام پر ذبح کر رہے تھے۔ اور مثالیں ان گنت ہیں۔ انسانی اخلاق ہماری اندرونی فطرت کے ماتحت ہونے چاہیں۔ اب چاہے ہم کو ایک معبود اچھا لگے یا دوسرا۔

گفتگو ہوتے ہوے ایک ہفتہ گزرنے کو آیا تھا۔ لڑکا جمعرات صبح دس بجے چومسکی کو جواب دیتے ہوے لکھتا ہےکہ میں نے سوال اسطرح اسوجہ سے کیا تاکہ میری پوزیشن واضح ہو جاے اور پھر ہم سوالات کے ذریعے سیکھنا شروع کریں گے۔ الہامی کتابوں کو پڑھنے کے بعد میں نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ بے جاء استعمال نہیں کی جا سکتیں۔الا یہ کہ قلب سلیم ہی موجود نہ ہو۔ توریت بے شک قدیم ہے لیکن جدید الہامی کتاب نے تحریفات کو صاف کر دیا۔اور جہاں تک بات ہے تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ ذبح کرنے والی مقدس ہستی کا تو پہلا ذرا یہ طے کر لیتے ہیں کہ حق بجانب ذبح کیا ہوتا ہے؟ کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ انسٹھ لاکھ لوگ جنگ عظیم اول اور دویم میں مارے گئے اور ذبح کرنے والوں کا تعلق آزاد فطرت سے جڑی اقوام سے تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم نظری طور پر یوں نہ سمجھ لیں کہ جنگ سے فرار ممکن نہیں اور یہ الہامی کتب کا نہیں بلکہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے؟ اور یہ کہ ہم معاہدوں کے ذریعے جنگوں سے بچ تو سکتے ہیں ختم نہیں کرسکتے؟ ایک آخری سوال یہ کہ چلیں الہامی کتب کو ہٹا دیتے ہیں، اب بتایں کہ کیونکر مختلف فطرت کے انسان ایک دوسرے کے ساتھ بغیر جنگ کے رہ سکتے ہیں؟

چومسکی لکھتا ہے کہ اچھے سوال ہیں لیکن مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اگر کہ ہم الہامی کتاب کو استعمال بھی کر لیں۔

لڑکا لکھتا ہے۔ میں معذرت خواہ ہوں کی تفصیلی جواب لکھ کر آپکا قیمتی وقت لے رہا ہوں۔ اگر ہم الہامی کتاب سے شروع نہ کریں تو ہمیں معاشرت ایک خالی کینوس سے شروع کرنا پڑے گا۔

پھر اس کینوس میں رنگ بھرنے کے لیے ہمیں بے حد بڑے بڑے معاشرتی تجربے کرنے پڑیں گے جس کی قیمت انسانی قوت، سرمایہ اور وقت ہو گی۔ اور یہ تمام محدود ہیں۔

مثلا یہ جواب دینے کے لیے کہ ہم کہاں سے آئیں ہیں اور ہماری منزل کیا ہے ہمیں لارج ہیڈرون کولایڈر جیسے تجربات کرنا ہوں گے جس کی قیمت ہے ساڑھے نو بلین ڈالر، پینتیس ممالک، ایک سو چونسٹھ ادارے اور دو ہزار سائنسدان۔

اسی طرح مال کو سمجھنے کے لیے ہمیں تجربات کرنے ہوں گے۔ مثلا شرح سود کو سمجھنے ہمیں جواب دینا ہو گا کہ سات فیصد ٹھیک ہے یا پندرہ فیصد غیر انسانی ہے یا پھر سود ہونا ہی نہیں چاہیے! اگرچہ مالیاتی تجربات ابھی مکمل نہیں ہوئے ہیں لیکن وارن بوفٹ نے اتنی ہمت ان سب تجربات کے درمیان کی کہ اپنا احساس جرم ظاہر کیا۔ بوفٹ کہتا ہے کہ موجودہ مالیاتی نظام جو میں کرتا ہوں بہت خوب نوازتا ہے، بے انتہا اور بے حد نوازتا ہے۔ میں اپنا احساس جرم نہیں چھپاوں گا کہ میرے پاس معاشرے کے لاتعداد چیک ہیں۔

مالیاتی تجربات کے بعد ہمیں تجارتی تجربات بھی کرنا ہوں گے مثلا کم منافع لیا جاے یا زیادہ۔ کون سی شرح منافع صحیح ہے؟ہمیں جواب دینا ہو گاکہ کیا تجارت منافع کے حصول کے لیے کی جاے یا انسانی ضرویات کو پورا کرنے کے لیے؟

منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کا گفتگو کو تجارت، سیاست، انسانی حقوق، لیڈرشپ، کاروبار، شادی اور قانون سازی کی طرف موڑتا ہے۔

- میاں ظہوری
 
آخری تدوین:
Top