ایک کہانی

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ایک پاگل سی لڑکی
وہ واقع پاگل تھی شاید، زندگی اس کے لئے ایک مذاق سے زیادہ نہیں تھی۔ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ اسے زندگی ملی ہے تو اسے گزارنے کا بھی ایک طرز و طریقہ ہے۔ پر وہ زندگی کو گزارتی ہی جارہی تھی فضول اور بے مقصد۔ اس نے ہمیشہ باغی کا کردار ادا کیا۔ اپنی ہی من مانی کی۔ جو دل نے کہا مان لیا بنا سوچے سمجھے۔ نا کسی سے پوچھا نا مشورہ لیا ۔ اگر کسی نے کہا یہ کر و تو وہ کہا کرتی نہیں ایسے کرنا ہے۔اس کی فطرت ہی ایسی تھی۔ وہ ہنس مکھ سی لڑکی رونقیں ڈھونڈا کرتی تھی۔ ہنسنا ہنسانا اس کا سب سے دلچسب مشغلہ تھا ۔ دوسروں پر اندھا اعتبار کرنے کی بُری عادت تھی۔ مہندی لگانا اسے بڑا پسند تھا ۔ اچھے کپڑوں کی دیوانی تھی وہ۔ پھر یو ں ہو ا کی حالات نے ایسے ایسے تھپڑ مارے اسے کہ درد کی شدت اس کی ساری زندگی تک اس کا پیچھا کرتی رہے۔ زندگی کوئی مذاق نہیں یہ اس نے تب سیکھا جب اس نے دنیا کو دوسرے رخ سے دیکھا ۔ جب اسے دوسروں بے پناہ اعتبا ر کا صلہ ملا اور پھر ملتا ہی گیا ۔ بس پھر زندگی اس کے لئے بہت مشکل ہو گئی ۔ وہ پاگل سی ہنس مکھ سی لڑکی کو چپ سی لگ گئی۔ پھر وہ رب سے گلہ کرنے لگی کہ تو نے مجھے بنایا ہی کیوں تھا ۔ ٹھوکریں کھا کھا کر دھو کے اور فریب کی زندگی سے اس نے کچھ سنبھل جانا سیکھا۔ زندگی کی تلخیوں نے اس کے اندر زہر بھر دیا۔ اور اس زہر کو وہ ہر ایک پر اگلنے لگی۔ مگر اس بار اسے بھی اسے منہ کی کھانی پڑی۔ اس کے گھر والے اسے بدزبان کہنے لگے۔ پھر اس نے دوسروں کی پسند کا خیال رکھنا شروع کر دیا۔ اس نے عید پہ بھی مہندی لگانا چھوڑ دی کہ اس کی ماں کو اس کا بے وجہ مہندی لگا نا پسند نہیں تھا۔ مگر عید پر مہندی لگانا کوئی بے وجہ نہیں ہوتا پر مہندی سے اس کا دل ہی اچاٹ ہو گیا۔اس نے اپنی زبان پر اپنے پر تالا ڈال لیا۔ وہ بولتی تھی پر ضرورت دنیا کے لئے۔ وہ ہنستی تھی ایک رسم سمجھ کر۔ ہاں ایک کا کا م وہ بہت دل سے کیا کرتی تھی۔ "رونا" اب رونا اس کا بہترین مشغلہ بن گیا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو زندگی کی بپھرتی ہوئی موجوں کے حوالے چھوڑ دیا تھا اس لئے کہ یا تو وہ ڈوب جائے گی یا تیرنا سیکھ جائے گی۔ اس سے وابسطہ ہر شخص کو اس سے گلہ تھا اس کے والدین کو اس کے بہن بھائیوں کو سب کو۔ اور اس کو اپنے آپ سے ان گنت گلے تھے اپنی نادانیوں پہ بہت غصہ تھا، اپنی عادتوں اور فطرت پہ اسے بہت افسوس تھا۔
بوعلی سینا سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ زندگی سے کیا پایا؟ رو پڑے
بولے۔ جو پایا وہ رب کی مہربانی تھی اور جو کھو دیا وہ میر ی اپنی نادانی تھی۔
یہی حال کچھ اس لڑکی کا تھا اس نے جو بھی کھو دیا تھا سب اس کی اپنی کو تا ہیاں اور نادانیاں تھیں۔
اس نے کچھ تو جینا سیکھ ہی لیا تھا اور کچھ دنیا اسے اور سکھا دے گی۔ مگر اس نے زندگی کو کیا دیا اور زندگی نے اسے کیا دیا اس بات کا افسوس آخری سانس تک اس کے ساتھ رہے گا۔اور وہ یہی خواہش کرتی رہے گی زندگی ایک بار اور مل جائے تو وہ کوئی غلطی نا کرے۔
واسلام۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھا لکھا ہے۔

میں نے کہا تھا کہ اپنا ایک الگ سے زمرہ بنا لو اور اس میں اپنی تحریریں بھیجتی رہا کرو۔
 

عثمان

محفلین
بہت خوب!
اپنے بلاگ کو اردو سیارہ پر رجسڑڈ کروالیں۔
اپنی تحاریر بلاگستان اور محفل دونوں پر شئیر کریں۔
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب تحریر
جو کہ نسوانی طرز فکر کی بہترین ترجمان کہلائی جا سکتی ہے ۔
شاباش بٹیا رانی
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بہت شکریہ :)
افففف پانچ سال پہلے لکھی تھی میں نے ۔۔۔ ہاہاہاہا کیسی کیس بونگیاں مارا کرتی تھی میں :p
ایسی ایسی. :p
ویسے.۔۔۔۔۔۔ آج کل کی بونگیاں کہاں لکھ لکها رہی ہیں۔:battingeyelashes:
اچها خاصا تو لکها ہے, بونگیاں کیسے ہو گئیں بهلا:)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
Top